یوں تو جو بھی استادِ محترم نے لاہور ائیرپورٹ پر دیکھا ، میرا تجربہ کچھ زیادہ مختلف نا تھا۔۔۔ ما سوائے کہ استادِ محترم صبر کا پیمانہ ہاتھ میں تھامے امیگریشن کی قطار میں کھڑے اپنے سبزپاسپورٹ پر "اسلامی جمہوریہ پاکستان" میں آفیشل داخلے کا ٹھپہ لگوانے کے منتظر رہے۔۔۔ اور میں اپنے سب اصول بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک جرم کر بیٹھا۔۔۔
قصہ یوں ہوا کہ جوں ہی ہمارے شاہین مسافر لاہور ائیرپورٹ پر اترے۔۔۔ ساری تمیزداریاں بھولے، اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینے کو اتاولے ہوئے جاتے تھے۔۔۔ پاسپورٹ کنٹرول پر چار عدد خوبرو اور بانکے چھبیلے بزرگ افسران بیٹھے "مستعدی" دکھا رہے تھے۔۔۔ حالانکہ امارات ائیرلائن کا بوئنگ 777 طیارہ جو نان سٹاپ ، بارو باری، فل پیسنجر آیا تھا۔۔۔ اور اتنی کثیر تعداد کو جلد اذ جلد نپٹنے کے لیے چار وں حضرات بظاہر ناکافی تھے ۔۔۔ لیکن انا بھی کوئی شے ہوتی ہے۔۔۔ اب کاونٹروں پر قطار لگانا تو ہم پاکستانیوں کی شان کے خلاف ہے۔۔۔ اس لیے چار کی بجائے ان گنت قطاریں سج گئیں۔۔۔
میں اپنے طور پر ممی ڈیڈی بچہ بنے، حیرت سے یہ سوچ رہا تھا کہ کونسی قطار کا حصہ بنوں ۔۔۔ جس سے باری جلدی آ جائے۔۔۔ لیکن سمجھ جواب دے گئی اور میں آنکھیں کھولے کوئی آسان حل ڈھونڈنے لگا۔۔۔ میری شکل اور عقل کا اندازہ لگا کر ایک پورٹر صاحب میری جناب بڑھے۔۔۔ اور اپنے لب میری کانوں کے پاس لا کر گویا ہوئے۔۔۔
" سر جی، جلدی ہے۔۔۔!!!"
ہاں یار جلدی تو ہے۔۔۔
"فکر نا کریں جناب۔۔۔ آپ چاہیں تو آپ کا کام جلدی کروا دیتا ہوں۔۔۔"
وہ کیسے۔۔۔؟
"آپ اپنا پاسپورٹ مجھے دیں، اور میرے پیچھے چلے آئیں۔۔۔"
بھائی جان، وہ تو ٹھیک ہے، پیسے کتنے لو گے۔۔۔؟
"کیسی بات کرتے ہیں سر جی، آپ تو اپنے بھائی جیسے ہیں۔۔۔ جتنا دل چاہے، اتنی عیدی دے دیجیے گا۔۔۔"
ھممم ، چلو ٹھیک ہے۔۔۔
اور میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔ ان حضرت نے مجھے کاونٹر کراس کروایا اور ایک بزرگ افسر کے پاس جا کر میرا پاسپورٹ اس کے سامنے رکھ دیا۔۔۔ آنکھوں آنکھوں میں دونوں حضرات نے کچھ باتیں کیں۔۔۔ افسر نے میرے پاسپورٹ پر ٹھپہ لگایا۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔۔۔ میں نے بھی جوابی مسکراہٹ سے ان کی مستعدی کا شکریہ ادا کیا۔۔۔
پورٹر صاحب میرے پاس آئے۔۔۔ اور پاسپورٹ مجھے دیتے ہوئے بولے، "آئیں سر، اب آپ کا سامان لے لیں۔۔۔"
سامان آتے آتے مزید پندرہ منٹ لگ گئے۔۔۔ لیکن پورٹر صاحب پوری جانفشانی سے میری خدمت کا لطف اٹھا رہے تھے۔۔۔ سامان آتے ہی میرا سامان ٹیکسی تک پہنچایا۔۔۔ اور میرے سامنے آ کر دانت دکھاتے ہوئے بولے۔۔۔ "سر جی، دیکھ لیں، آپ کے دو گھنٹے بچا لیے۔۔۔"
میں نے پورٹر بھائی کا شکریہ ادا کیا۔۔۔ اور جیب سے دو سو روپے نکال کر اسے اس کی محنت کا صلہ دینے کی کوشش کی۔۔۔ اب کی بار ان کے دانت نہیں، بلکہ آنکھیں باہر نکل آئیں۔۔۔ "سر جی، کیا مذاق کر تے ہیں۔۔۔ پانچ سو تو صرف پاسپورٹ افسر کو دینا ہے۔۔۔ کچھ درہموں میں دیں نا۔۔۔ بچے دعائیں دیں گے۔۔۔"
میں نے کہا یار، میرے پاس درہم تو فی الحال نہیں ہیں، لیکن تم نے اتنی مدد کر دی ہے تو میں زیادہ سے زیادہ تمہیں سات سو روپے دے سکتا ہوں۔۔۔ اس سے زیادہ نہیں۔۔۔ بڑی بحث کے بعد آخر اسے پیار محبت سے آٹھ سے روپے کی "رشوت" دے کر اپنی جان چھڑوائی اور اپنی بیٹی سے ملنے ڈسکہ روانہ ہوا۔۔۔
نخرے تو ہم نے ساری عمر دوسروں کے اٹھائے ہیں۔۔۔ لیکن پاکستان پہنچتے ہی جو"عزت" مجھے پورٹر صاحب اوربزرگ افسر نے دی۔۔۔ اس نے مجھے میرے نفس کو یقین دلا دیا۔۔۔ کہ ہونہہ، گورے کیا ہوتے ہیں۔۔۔ اپنے ملک میں تو ہم کالے بھی، "کالے صاحب" ہی ہیں۔۔۔ جہاں جہاں دوسروں کی عزتِ نفس پامال کرنی ہو۔۔۔ یہ خدمت ہم سے اچھی کوئی کر ہی نہیں سکتا۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے جیسے ہزاروں "کالے صاحب" اپنی عزت نفس خود اپنے ہاتھوں سے مجروح کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔۔۔ اور انہیں کوئی تکلیف یا بےعزتی بھی محسوس نہیں ہوتی۔۔۔
رکیے حضرات، یہ ایسا واحد جرم نہیں جو میں نے پاکستان میں کیا۔۔۔ اس طرح کے "ہلکے پھلکے "جرم قدم قدم پر میں کرتا آیا ۔۔۔ اس لیے نہیں کہ میرے پاس بڑے پیسے تھے۔۔۔ بلکہ اس لیے کہ میرے پاس اور کوئی "چوائس " نہیں تھی۔۔۔ ان جرائم کی تفصیلات پھر کبھی۔۔۔
یہ تحریر استادِ محترم جناب جعفر حسین کے کالم "کالا صاحب" سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔۔۔
7 Comments
پس تجربہ سے ثابت ہوا کہ پیسے میں بہت طاقت ہے، ادھر یورپ میں بھی فسٹ کلاس اور وی آئی پی لاونج کا مزہ لیں کبھی، قسمیں چس آجائے گی۔ مگر پیسے دیتے ہوئے آپ کے پیٹ میں کڑل اٹھنے ہیں، پہلے سے بتلا رہا ہوں
ReplyDeleteمیرے تجربہ ہے ٹیکسی ڈرائیور بھی ترس نہیں کھانا چاھئے۔
ReplyDeleteاور اگر آپ باہر ملک کے شٹائیل میں ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے تو باتیں ہوں گی ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹیکسی ڈرائیور ڈر جائے گا!
دو وہ سمجھ جائے گا کہ یہ کالا صاحب ہے ؛ڈڈ
بحرحال جہاں چند سو روپے میں کام ہو جائے وہاں اچھے برے کا مت سوچیں ؛ڈڈ
لے دسو ،
ReplyDeleteایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی آنکھیں سر پہ رکھ لینی تھیں ، جیسے جانتے ہی نہ ہو ، الٹا اونچی آواز میں سنا دیتے ایک دو کہ باہر سے بندہ آجائے پیچھے پڑ جاتے ہیں ، محنت کرتے موت پڑتی .. وغیرہ وغیرہ
اگر آپ پاکستان میں آکر ایر پورٹ پر ہی پردیس کی فارغ البالی کا چولا اتار پھینکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو چونا لگنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی.
ReplyDeleteمیری سمجھ میں یہ بات پچھلے 45 سال سے نہیں آئی کہ میرے وطن سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ غیر ممالک میں نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں تو وطن میں داخل ہوتے ہی انہیں کیا ہو جاتا ہے ؟
ReplyDeleteکیا میں پاگل ہوں جو ہر جگہ ایک جیسا ہی رہتا ہوں ۔ جو سوچتا ہوں کہتا ہوں ۔ جو کہتا ہوں وہ کرتا ہوں
ہاہاہاہا
ReplyDeleteزبردست۔ویسے اگر عمران صاحب تھوڑا سا جی مضبوط کرتے تو شائد اس خرچے سے بچ جاتے۔
تبصرہ بلا امتیازکے کمنٹس پر کیا تھا لیکن شائد وہاں شایع نہ ہوا۔
ReplyDeleteاگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔