بلاعنوان

میں امیگریشن کاونٹر سے آگے نہیں جا سکتا تھا۔۔۔ سفید فراک میں ملبوس میری پری، علیزہ بار بار پیچھے مڑ کر مجھے دیکھ رہی تھی۔۔۔ امیگریشن کاونٹر میں داخل ہونے سے پہلے وہ پھر سے مڑی۔۔۔ اور مجھے زور سے آواز دی۔۔۔ "بابا، آ جاو۔۔۔"


میں اپنی جگہ کھڑے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ علیزہ نے سر اٹھا کر توتلی زبان میں اپنی ماں سے پوچھا۔۔۔ "ماما، بابا نہیں آلے۔۔۔؟"


اس کی ماں کو اشارہ کیا کہ اسے لے جاو۔۔۔ اور وہ امیگریشن کاونٹر میں داخل ہوتے ہی میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔۔۔ بس علیزہ کی آخری نظر میں مجھے اداسی نظر آئی۔۔۔


امیگریشن کاونٹر  سے میری گاڑی تک دس منٹ کی پیدل مصافت تھی۔۔۔ میں بس یہ جانتا ہوں کہ گاڑی تک پہنچنے تک، میں چلتے چلتے ہچکیوں کے ساتھ رو رہا تھا۔۔۔  اور میرے آنسو  میرے چہرے کو مکمل طور پر بھگو چکے تھے۔۔۔

9 Comments

  1. بس جی کیا کریں کہ تجھ سے بھی دلفریب ہیں روزگار کے غم

    ReplyDelete
  2. واقعی بچوں کی محبت ایک امتحان ہوتا ہے۔
    شائد علیزہ پھر نانی کے گھر جا رہی تھی۔

    ReplyDelete
  3. تین سال پہلے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا جب میری فیملی پاکستان جا رہی تھی جبکہ مجھے ایک مہینہ بعد جانا تھا. سارا کام ہنسی خوشی ہورہا تھا. سارا سامان پیک ہوگیا . سب لوگ تیار ہوگئے کہ اب سامان اٹھائیں اور گھر سے نکلیں کہ اچانک مجھے اپنے اندر چیزیں بکھرتی محسوس ہوئیں اور جذبات نے اپنی گرفت میں اس طرح سے لیا کہ میں خود بعد میں حیران ہوا.
    یہ بالکل نئی اور انوکھی چیز تھی کیونکہ رونا میرے بس سے باہر کی بات ہے. غالبآ اسکی وجہ یہی ہے کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے روایتی مرد اپنے خاندان کا جذباتی طور پر محتاج ہوجاتا ہے.

    ReplyDelete
  4. ڈاکٹر صاحب۔۔۔ بلکل درست فرمایا۔۔۔ جوں جوں ہم بڈھے ہو رہے ہیں۔۔۔ اتنے ہی جذباتی ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ اور خاص طور پر بچوں کو لے کر۔۔۔

    خراسانی صاحب۔۔۔ درست سمجھے۔۔۔ علیزہ پھر سے نانی سے ملنے گئی ہے۔۔۔ :(

    ReplyDelete
  5. ارے بھائی ، تیس سال کی عمر میں خود کو بوڑھا سمجھنے لگو گے تو رونا نہیں آئے گا تو کیا آئے گا :lol:

    ReplyDelete
  6. عمران بھائی!

    انسان کی زندگی اسکے اہم ترین واقعات میں سے ایک اہم واقعہ اسکا باپ بننا ہے ۔ جو اسکی زندگی کا رخ بدل ڈالتا ہے۔اولاد ایک ایسی نعمت ہے۔ جو دل میں گداز اور نرمی پیدا کرتی ہے۔ اور بچیاں تو ویسے بھی بہت پیاری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالٰی آپکی خوشیاں سلامت رکھے ۔اور اپنی اہل خانہ سے دوبارہ جلد ملاقات کا نیک سبب بنائے۔

    ReplyDelete


  7. بلاشبہ ۔۔ عزیزوں اور خصوصا" چھوٹے بچوں سے جدائی کے لمحات۔۔۔ دل چیڑ کر رکھ دیتے ہیں !!! :sad:

    ReplyDelete
  8. بھائی عمران اقبال، میں لفظوں سے نہیں دل سے آپکی عزت کرتا ہوں میرا ایمان ہے کہ آپ بہت اچھے انسان ہو اور دوستی کے لائق ہو، میں آپکے بلاگ پر اپنی فیس بک کی آئی ڈی دے رہا ہوں امید ہے آپ مجھے ایڈ کرلیں گے، اور ہماری دوستی ہمیشہ قائم رہے گی انشاءاللہ۔
    kashifyahya81@hotmail.com

    ReplyDelete
  9. آپ کی بیٹی سے محبت کا پڑھ کر مجھے اپنے بابا کی یاد آگئی یہ باوا لوگ اپنی بیٹیوں کو اتنا چاہا کیوں کرتے ہیں پھر انہیں خود سے دور بھی بھجا دیتے ہیں ، ا فف

    بہت سیدھے سادھے انداز میں جو محسوس کرے وہ لکھتے ہیں آپ بہت اچھا لگا ایسا لکھنا آپ کا

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔