سفر نامہ / Suffer-nama

یوں تو بندہ (مراد بذات خود، یعنی میں یعنی عمران اقبال) ہر طرح کے سفر سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ اگر تین گھنٹے کی فلائیٹ گزار کر لاہور بھی جانا پڑے تو جان پر بن آتی ہے۔۔۔ آخر کیا کریں ان تین گھنٹوں میں۔۔۔ سوائے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے کروٹیں بدلنے کے۔۔۔ یا اپنے ہمسائے کی "ڈاکخانہ" ملانے کی کوشش اور پھر ان کے سفر کرنے کی ذاتی وجوہات سننے اور برداشت کرنے کے۔۔۔ آن فلائیٹ اینٹرٹینمنٹ بھی کچھ زیادہ اینٹرٹین نہیں کرتا۔۔۔ ایک دو کلک کے بعد بور ہو جاتا ہوں۔۔۔۔


میرا یار برھان منہاس جو امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔۔۔ اکثر ضد کرتا ہے کہ ویزہ لگواں اور امریکہ کا چکر لگا لوں۔۔۔ اور میں یہ سوچ کر ہی ویزہ کے لیے اپلائی نہیں کرپاتا کہ کون اٹھارہ گھنٹے جہاز میں بیٹھے۔۔۔ سفر سے میری بیزاریت کا عالم یہاں تک ہے کہ آئل اینڈ گیس کی ایک کانفرنس مئی میں ہیوسٹن میں منعقد ہو رہی ہے۔۔۔ اور میرا اس میں شرکت کرنا میرے کیرئیر کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔ میری کمپنی مجھے اور میری ایک کولیگ کو وہاں بھیجنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔۔۔ مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے سوچنے کے لیے وقت مانگ لیا ہے۔۔۔ اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔۔۔


واللہ، میں بھی عجیب بندہ ہوں۔۔۔ کہ نا تو سکون سے بیٹھا پاتا ہے۔۔۔ اور نا اپنی خاموش خلا میں کسی کی غیر ضروری مداخلت پسند کرتا ہے۔۔۔ سفر کے دوران وقت گزاری کے لیے کوئی کتاب پڑھنا تو بہتر محسوس ہوتا ہے۔۔۔ لیکن کسی اجنبی شخص سے "وقت گزاری" کرنا مجھے زرا بھی نہیں بھاتا۔۔۔ خیر۔۔۔ جیسے میں نے عرض کی کہ میں بڑا ہی عجیب بندہ ہوں۔۔۔ کوئی اور سمجھے تو سمجھے، میں تو خود کو زرہ برابر نہیں سمجھ پایا۔۔۔


اس مرتبہ سفر کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ اپنی گزری زندگی ایسے تجربے سے بلکل نافہم ہی رہی۔۔۔ اور وہ یہ تھی کہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی کے ہمراہ چھٹیاں گزاری جائیں۔۔۔ اور یہاں چھٹیوں سے مراد، ایک محدود مدت کے لیے آفس کی چخ چخ ، باقی دنیا سے کنارہ کشی ، کچھ پرانے اور نئے احباب سے ملاقات ہے۔۔۔ تو اپنی بارہ دن کی چھٹیوں کو ایسے پلان کیا کہ ڈسکہ، اپنے آبائی گاوں "بوبکانوالہ" ، گوجرانوالہ، لاہور، اسلام آباد، مری اور کراچی کی "سیاحت" کی جائے۔۔۔ اور ان بارہ دنوں میں جان، مال اور رشتے داروں سے عزت بچا کر واپس دبئی پہنچنا ہی شایدمیری کامیابی رہی۔۔۔


چیدہ چیدہ تجربے جن کے بارے میں لکھنے کا ارادہ ہے اور انشاءاللہ موقع ملا تو جلد ہی لکھ بھی دوں گا وہ یہ رہے۔۔۔


مری میں قیام اور تجربے
اسلام آباد میں انتہائی دلکش بلاگر دوست"بلاامتیاز" سے ملاقات۔۔۔
خانصپور میں ایک بزرگ "ٹورسٹ گائیڈ" سے ملاقات۔۔۔
کراچی میں دو دن کی روداد اور اپنے بہت عزیز دوست "وقار اعظم اور کاشف نصیر" سے ملاقات۔۔۔


(یہ سلسلہِ سفرنامہ امتیاز کی فرمائش پر لکھ رہا ہوں۔۔۔ ورنہ جو خوبصورت وقت گزرا، اس کے بارے لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔۔۔ اب بس دعا کریں کہ سلسلہ پورا لکھ ہی دوں۔۔۔)


11 Comments

  1. سفر نامے کی سیریز کا انتظار رہے گا، اور پورا لکھنے کے لیے دعا نہیں کسی اور چیز کی ضرورت ہے تمھیں :)

    ReplyDelete
  2. عمران بھائی میں تو کافی دنوں سے انتظار کر رہا تھا کہ آپ ایسا کچھ لکھیں گے

    ReplyDelete
  3. بہت خوب جناب۔۔۔۔۔ سفر میرے لیے بھی آپ ہی کی طرح کا انگریزی کا سفر ہے۔ مجھے سفر سے تھوڑا خوف آتا ہے وجہ اسکی صرف حضرت انسان ہی ہے۔
    سفر نامے کا انتظار رہے گا۔ سفر نامہ کے لیے تمہید باندھنا اچھا لگا۔

    ReplyDelete
  4. یرا جی۔۔۔۔۔۔۔سفر کیا جا سکتا ہے۔۔چاہے سو گھنٹے کا ہو،۔۔۔
    لیکن شرط یہ ہے ،کہ ساتھی کولیگ کا حدود اربعہ کیا ہے؟
    پاغلو ایسے موقع بار بار نی آتے ؛ڈڈ

    ReplyDelete
  5. میں تو بہت شدت سے انتظار کرنے لگ گیا ہوں آپکے سفرنامے کا.

    ReplyDelete
  6. عمران صاحب:
    سفر نامے کا انتظار ہے۔ہیوسٹن کانفرنس میں اگر کوئی مسئلہ نہ ہو تو جاو۔
    کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر

    ReplyDelete
  7. آج کل اردو سیارہ اور اردو محفل پر سفرناموں کا موسم چل رہا ہے۔

    ReplyDelete
  8. سفر سے خوف مگر کمال یہ ہے کہ 12 دن میں ڈسکہ ۔ گوجرانوالہ ۔ لاہور ۔ اسلام آباد ۔ خانصپور ۔ مری اور کراچی ۔ جب کالج کے ساتھ ٹُوور پر گئے تھے تو بھی 12 دن میں اتنے شہر نہیں دیکھے تھے
    ہماری محرومی دیکھیئے کہ ہمارے شہر (اسلام آباد) میں سے اتنے بڑے لوگ ہو کر چلے گئے اور ہم سوئے رہ شاید ۔
    چلیئے کچھ تو فائدہ ہوا کہ پتہ چل گیا ۔ امتیاز رکھنے والی شخصیت بھی ہمارے شہر میں رہتی ہے

    ReplyDelete
  9. افتخار اجمل صاحب... شرمندہ مت کیجیے جناب... "بڑا آدمی"...!!! سر جی، مجھ سے زیادہ چھوٹا انسان شاید اس روئے زمین پر نہیں...

    ReplyDelete
  10. جس وقت ہماری ملاقات ہوئی مجھے 103 بخار تھا لیکن یقین جانے مجھے تھوری دیر کے لئے اسکی شدت محسوس نہیں ہوئی. خوش گپیاں اور جوہر فوڈ اسٹریٹ کی کھلی فزا میں کڑھائی واقعی بہت یادگار تھی، لیکن آپ نے بل ادا کرکے کراچی والوں سے زیادتی کی.
    سفرناموں کا انتطار رہے گا.

    ReplyDelete
  11. تو جناب عمران صاحب
    بعد از سلام
    عرض ہے کہ
    کراچی میں آپ کے قیام میں بندہ کا بھی سہرا ہے میرے بغیر کراچی میں رات 4 بجے تک گھوم کے دیکھاتے
    ہاہاہا

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔