ڈپلومیسی۔۔۔



خوامخواہ کی یاریاں نبھاتے میں تو تھک گیا ہوں بھائی۔۔۔ اتنا بھی مجھے دنیا اور دنیا کے لوگوں سے پیار نہیں، جتنا دکھانا اور سمجھانا پڑتا ہے۔۔۔ اب یہ ڈرامہ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ کہ سامنے والا بک بک پر بک بک کیے جا رہا ہے۔۔۔ اور آپ دستورِ دنیا نبھانے کو اس کی ہاں میں ہاں اور فضول سی مسکراہٹ کے بدلے ایک چھوٹا سا گھٹیا قہقہہ لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔۔۔

یار یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔ کوئی بندہ پسند نہیں ہے تو اس کے منہ متھے کیوں لگنا۔۔۔ جب دل نہیں چاہ رہا کسی سے بات کرنے کا، تو ایسی کیا مجبوری آ گئی کہ اٹھ کر اس سے گلے بھی ملا جائے۔۔۔ کیا یہ ڈپلومیسی آج کل ہماری جان نہیں مار رہی۔۔۔؟

بنیادی طور پر میں حد درجہ کا بور بندہ ہوں۔۔۔ تنہائی پسند۔۔۔ شور شرابے سے نفرت کرنے والا۔۔۔ سکون کا متلاشی۔۔۔ لیکن شو مئی قسمت کہ سکون اور تنہائی سے میرا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔۔۔ اب جب بیٹھے بیٹھے کوئی بندہ اپنا سا منہ لے کر میرے منہ لگنے کی کوشش کرتا ہے تو دل چاہتا ہے کہ اس کا منہ پن کے رکھ دوں۔۔۔ مثال کے طور پر:

‘ عمران صاحب، پاس کی کمپنی میں آیا تھا، سوچا آپ سے بھی ہیلو ہائے کرتا چلوں’۔۔۔

’ بھائی تو اُدھر آیا تھا تو اِدھر تیرا کیا کام۔۔۔ مجھے تیری ہیلو ہائے سے کیا لینا دینا۔۔۔’ (اب یہ بھی دل میں سوچا جا سکتا ہے۔۔۔) منہ سے تو نکلا، اچھا کیا جناب چکر لگا لیا۔۔۔ کافی دن سے آپ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔ (آئے ہائے۔۔۔ یہ کیا کہہ دیا۔۔۔ وہ تو واقعی سچ سمجھ بیٹھا۔۔۔ اور یہ کیا، کرسی کھینچ کر بیٹھ بھی گیا۔۔۔ )

‘چائے پلائیں عمران صاحب، بڑی طلب ہو رہی ہے’

‘تیری تو۔۔۔ ً!#$٪ۂۂ&’ بیٹھ بھی گیا تو !#$٪ۂۂ۔۔۔ ‘ (کاش یہ سب کچھ بھی دل میں سوچنے کی بجائے اس کے منہ پر مار دیتا۔۔۔ کم از کم میری جان چھوڑ کر بھاگ جاتا اور پھر کبھی ادھر کا چکر نا لگاتا۔۔۔۔ !#$٪ۂۂ)

اب اس حضرت بندے کی بکواس کا سلسلہ شروع ہوتا ہوتا ایک آدھ گھنٹے تک پہنچ گیا اورمیں اپنی مصروفیت یا کہہ لیں کہ تنہائی کے چند قیمتی لمحات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔۔۔

اب میں تو ہوں ہی ایسا۔۔۔  منہ متھے اس لیے لگتا ہوں کہ کسی دانشور کا قول کبھی پڑھ لیا تھا کہ بھائی کسی بھی بندے کے ساتھ برا مت پیش آو۔۔۔ کیا پتا کل کلاں تجھے اس کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔ اب کل کی ضرورت کا تو پتا نہیں۔۔۔ یہ ضرور جانتا ہوں کہ میرے آج کا سکون اس بندے کے ہیلو ہائے نے خراب کر دیا۔۔۔ وہ سکون جو میری تنہائی کے روپ میں مجھے ملتا ہے۔۔۔ لیکن سکون اور تنہائی کا مجھ سے کیا واسطہ۔۔

18 Comments

  1. عمران بھای کیا کہہ سکتا ہوں ، میں خود بھی زیادہ لوگوں سے ملتا جلتا نہیں مسجد میں بھی سلام دعا سے زیادہ نہیں کچھ لوگوں کی عادت کچھ زیادہ ملنسار ہوتی ہے اور اگر آپ اچھے سامع ہیں تو پھر انکو اس سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہیے ۔ بہرحال آپ کے بلاگ پر یہ تھیم بہت خوبصورت لگ رہی ہے ۔

    ReplyDelete
  2. یہ نیٹ میں گھسے سارے ہی تنہائی پسند ہوتے ہیں۔
    یہ نئی تھیم بڑی زبردست ۔
    مولوی خدائی فوجدار کی بھی کیا باتاں

    ReplyDelete
  3. عمران ساحب وہ گوگل پلس والی تصویر مین تو ایسا نظر نہیں آرہے جیسے کہ آپ نے لکھا ہے۔
    بہر حال تھیم بھی پسند آئی۔
    ڈفریوں کا مقابلہ کرنے کی میرے خیال میں ٹھان لی ہے۔کب ہے وہ منظرنامہ ایوارڈ۔؟

    ReplyDelete
  4. آپ بھی میرے قبیلے کے ہیں.آدمی جب اپنی مستی میں مست ہو تو اسے باہر کی مداخلت بری لگتی ہے. میرے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے. پانچ ، دس منٹ سے زیادہ بات کرنا میرے لیے بہت مشکل کام ہے. مشکل تب ہوتی ہے کہ جب سامنے والا بڑی محبت اور خلوص سے مل رہا ہو. آپ کو اسکی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے. جھوٹے قہقے بھی لگانے پڑتے ہیں. اسی سے میں نے ایک عادت سیکھی ہے کہ جب بھی کوئی مختصر بات کرنے لگ جاتا ہے اور ہاں میں ہاں ملانے لگتا ہے تو میں فوری طور پر سامنے والے سے اجازت لے لیتا ہوں.

    ReplyDelete
  5. رابطے حد سے بڑھہ جائیں تو غم ملتے ہیں
    ہم اس ہی واسطے ہر شخص سے کم ملتے ہیں۔

    نیا لک زبردست ہے عمران بھائی۔

    ReplyDelete
  6. :-D عمران بہت خوب ، اتنی روانی سے لکھا ہے مزہ آگیا پڑھ کے ۔۔۔ ویسے آج کل میرا بھی یہی حال ہے ویسے ہمیشہ نہیں ہوتا میرا حال ۔۔۔ تھیم بہت خوبصورت ہے ۔۔

    ReplyDelete
  7. ہمیشہ نہیں ہوتا ،بس صرف زیادہ ہوتا ہے۔معذرت کے ساتھ۔ ،ایسا نہ ہو ادھر ہی موڈ آف ہوجائے

    ReplyDelete
  8. عمران اقبالJuly 3, 2011 at 4:58 AM

    کاکے۔۔۔ میری جان۔۔۔ ویسے لوگوں کو پتا کیسے چلتا ہے کہ ہم اچھے سامع ہیں۔۔۔؟ اور اگر ہم اچھے سامع ہیں بھی تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہ ہماری خاموش سماعت کا امتحان لیں۔۔۔؟
    وقار بھائی کی ترجمہ کردہ اس تھیم کی پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔ اللہ وقار بھائی کو مدد کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔

    ReplyDelete
  9. عمران اقبالJuly 3, 2011 at 4:59 AM

    یاسر بھائی۔۔۔ نیٹ داراصل ایک خاموش شور ہے۔۔۔ اس لیے میرے جیسے تنہائی پسند نیٹ کی خاموشی پسند کرتے ہیں۔۔۔
    خدائی مدد گار یعنی وقار بھائی کی ترجمہ کردہ اس تھیم کی پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔ اللہ وقار بھائی کو مدد کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔

    ReplyDelete
  10. عمران اقبالJuly 3, 2011 at 5:02 AM

    درویش خراسانی صاحب۔۔۔ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس تحریر اور میری گوگل پلس والی تصویر میں کیا لنک ہے؟ اور تحریر سے شخصیت کا عکس کیسے ظاہر ہو سکتا ہے۔۔۔؟
    ڈفر ہم جیسے بلاگروں کے استاد ہیں۔۔۔ ان کے مقابلے کا میں تو سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔ اور نا ہی مجھ میں ان جتنی صلاحیت ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  11. عمران اقبالJuly 3, 2011 at 5:06 AM

    ڈاکٹر صاحب۔۔۔ بلکل درست فرمایا آپ نے۔۔۔ جھوٹے قہقہے لگانا مجھے بہت مشکل لگتا ہے لیکن مجبورا یہ چھری بھی اپنے گلے چلانی پڑتی ہے۔۔۔
    اب قصور اگلے بندے کا نہیں کہ وہ تو خلوص سے مل رہا ہے۔۔۔ لیکن ہم ہی عادت سے مجبور ہیں۔۔۔ کہ زیادہ ہجوم اور زیادہ توجہ ہمیں اچھی نہیں لگتی۔۔۔
    یہ بہت اچھی عادت ہے کہ ہم جب خود محسوس کرتے ہیں کہ اگلا بندہ ہماری بات سننے میں انٹرسٹیڈ نہیں۔۔۔ تو آرام سے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔۔۔
    وقار بھائی کی ترجمہ کردہ اس تھیم کی پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔ اللہ وقار بھائی کو مدد کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔

    ReplyDelete
  12. عمران اقبالJuly 3, 2011 at 5:08 AM

    فکر پاکستان بھائی۔۔۔ بہت اعلیٰ شعر ہے۔۔۔ اور بے شک میری حالت پر پورا اترتا ہے۔۔۔

    وقار بھائی کی ترجمہ کردہ اس تھیم کی پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔ اللہ وقار بھائی کو مدد کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔

    ReplyDelete
  13. عمران اقبالJuly 3, 2011 at 5:11 AM

    حجاب۔۔۔ تھیم اور تحریر دونوں کی پسندیدگی کا بہت شکریہ۔۔۔

    اللہ ہم دونوں کا حال بہتر کرے۔۔۔ آمین۔۔۔ ;-)

    ReplyDelete
  14. درویش خراسانی آپ کو وجہ پتہ نہیں ہوتی اس لیئے زیادہ لگتا ہے ، میرے لیئے وہ بہت کم غصہ ہے ۔۔

    ReplyDelete
  15. ماشاء اللہ بہت خوبصورت تھیم ہے آپ کے بلاگ کی. اور آپ کی تحریر بھی بہت اچھی ہے

    ReplyDelete
  16. عمران اقبالJuly 4, 2011 at 3:34 AM

    عدنان صاحب۔۔۔ تعریف کا بہت شکریہ۔۔۔

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔