ایک مظلوم باپ کا خط

اس تحریر میں مذکورہ کریکٹر فرضی ہیں. حقیقی افراد سے کوئی مشابہت، زندہ اور مردہ، مکمل طور پر اتفاق ہے.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مجھ جیسے غریب بندے کے بگڑے ہوئے بیٹےعبداللہ۔۔۔

تو تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے قطع تعلقی کا اعلان کر چکا ہوں۔۔۔ پاکستان کے ہر بڑے اخبار میں نوٹس بھی شائع کروا چکا ہے۔۔۔ اردو لکھنی نہیں آتی تھی لیکن تجھ تک پیغام بھیجنے کے لیے اس عمر میں آنٹی سے ٹیوشن بھی لینی پڑی اور ان کی چاکری الگ۔۔۔

بیٹا۔۔۔ میں غریب آدمی ضرور ہوں لیکن عزت والا ہوں۔۔۔ ساری عمر کبھی حرام نہیں کھایا۔۔۔ ساری عمر بڑوں بزرگوں کی سیوا کی ہے۔۔۔ اسلام کے بول بالے کے لیے بھی بڑی محنت کی ہے۔۔۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں غلطی ہو گئی مجھ سے تیری پرورش میں۔۔۔

بیٹا بچپن سے تجھے سمجھاتے آئے ہیں کہ سیاست گندی چیز ہے۔۔۔ اس کو ہاتھ مت لگا۔۔۔ اس کے قریب مت جا۔۔۔ لیکن ایک نظر کی چوک تجھے بھیا جی کی گود میں لے گئی۔۔۔ وہ لمحہ اور آج کا دن، تو ہمارا نہیں رہا۔۔۔ پہلے مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اچانک تجھے ہوا کیا ہے۔۔۔ تیری سوچ اتنی گندی کیوں ہو تی جا رہی ہے آہستہ آہستہ۔۔۔

پھر ایک دن تو نرسری سے گھر نہیں آیا۔۔۔ بہت ڈھونڈا تجھے۔۔۔ تجھے نہیں ملنا تھا، تو نا ملا۔۔۔ تین ماہ تجھے کہاں نہیں ڈھونڈا۔۔۔ کس کس کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔۔۔ تھک ہار کر، صبر شکر کر کے بیٹھ گئے۔۔۔ کہ شاید تو مر گیا ہے۔۔۔ (کاش تو مر ہی گیا ہوتا۔۔۔)۔۔۔

ایک دن تو اچانک لوٹ آیا۔۔۔ خوشی سے زیادہ حیرت ہوئی کہ اتنی سی عمر میں تیری اتنی گھنی مونچھیں کیسے آ گئیں۔۔۔ بہت پوچھا تجھے کہ کہاں تھا۔۔۔ "کیا کیا ہوا" تیرے ساتھ۔۔۔ لیکن تو کچھ بولتا ہی نہیں تھا۔۔۔

کبھی تو گلی میں کھیلتے بچوں سے لڑ پڑتا اور کبھی مسجد میں جاتے نمازیوں کو دور دور سے منافق منافق کہتا رہتا۔۔۔ کبھی گزرتی ہوئی عورتوں کو ان کے حجاب کے باوجود بے شرم، بے حیا کہہ کر آوازیں کستا۔۔تو کبھی میری داڑھی کی وجہ سے مجھے جماعتی جماعتی کے طعنے دیتا۔۔۔ ہر پرائے مسئلے میں اپنی ٹانگ اڑانا تیری عادت بن گیا۔۔۔ کسی فوتگی میں بھی چلا جاتا تو "بھیا جی زندہ باد" کے نعرے لگاتا۔۔۔ جس کی وجہ سے کئی بار تجھ سمیت مجھے بھی مار کھانی پڑی۔۔۔ ہر رات کو سونے سے پہلے اپنی انگلیوں پر بھیا جی بھیا جی کا ورد کرتا رہتا۔۔۔ ماسی بشیراں کے ساتھ تیری دوستی بڑھتی گئی، جو مجھ سمیت کسی محلے والے کو پسند نہیں تھی۔۔۔ (تو تو جانتا ہے کہ ماسی بشیراں "پھپھے کٹنی" کے طور پر مشہور تھی)، سب کو یقین ہوگیا کہ تو اسی کے کہنے پر ساری حرکتیں کرتا ہے۔۔۔

محلے کو کچھ غیور نوجوانوں نے کئی بار تیری پٹائی بھی کی لیکن ان تین ماہ میں تیری برین واشنگ ہو چکی تھی۔۔۔ لعن طعن اور مار کٹائی کا بھی تجھ پر کوئی اثر نا ہوا۔۔۔ ہر مار کے بعد تیری گھٹیا حرکتوں میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔۔۔

پھر تیرے پاس اچانک پیسے کی ریل پھیر شروع ہو گئی۔۔۔ کبھی نئی شرٹ، کبھی نئی پینٹ، کبھی نیا موبائل۔۔۔ اور پھر ایک دفعہ نئی گاڑی۔۔۔ میں بہت پریشان ہوا کہ اتنی بالی عمریا میں تجھے گاڑی کسی نے لے کر دی۔۔۔ کچھ چھان بین کے بعد پتا چلا کہ تو تو بھیا جی چیلوں کے "ہاتھوں اور گودوں" میں کھیلتا پایا جاتا ہے۔۔۔

ایک دن تو نیا لیپ ٹاپ لے آیا۔۔۔ اور پھر سارا دن تو اس لیپ ٹاپ سے چپکا رہتا۔۔۔ تیرے دو ہی کام رہ گئے، لیپ ٹاپ پر کچھ پڑھنا،  ماسی بشیراں کو رپورٹ دینا۔۔ اور پھر لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرتے رہنا۔۔۔ اس کا اثر ہم نے یہ دیکھا کہ کبھی تو بستر پر الٹا پڑا روتا رہتا اور کبھی غسل خانے سے تیری دھاڑوں کی آواز آتی۔۔۔ رو رو کر تیری آنکھوں کے گرد "حلقے" بھی پڑ گئے۔۔۔ جب تو اپنی تنہائی میں یہ آوازیں لگاتا کہ "کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا۔۔۔ اور سب مجھے ذلیل کرتے رہتے ہیں"۔۔۔ تو تو نہیں جانتا کہ ہم پر کیا بیتتی تھی۔۔۔

تجھے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔۔ اس لیے برداشت کرتے رہے تجھے۔۔۔ آخر کار ہمیں کسی نے مشورہ دیا اور ہم نے سعودی عرب سے ایک ڈاکٹر کو طلب کیا۔۔۔ ڈاکٹر "ج" نے ہر طرح سے تجھے سمجھانے اور تیرے علاج کی کوشش کی۔۔۔ لیکن جلد ہی  ڈاکٹر صاحب بھی امید چھوڑ بیٹھے۔۔۔ انھوں  نے ہم سے جو کہا، اس کے جواب میں ہم پکار اٹھے۔۔۔

"ڈاکٹر صاحب۔۔۔ کیا عبداللہ نفسیاتی مریض ہے۔۔۔؟ کیا عبداللہ پاگل ہو گیا ہے۔۔۔؟ کیا عبداللہ کو کوئی علاج نہیں۔۔۔ ہمارے عبداللہ کو بچا لیں ڈاکٹر صاحب۔۔۔ ہمارے عبداللہ کو بچالیں۔۔۔ خدارا۔۔۔ ورنہ عبداللہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔۔۔ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ ہمارے عبداللہ کا علاج مفت میں کر دیں۔۔۔ پگلا ہے ہماراا عبداللہ۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ آپ ہماری کچھ مدد نہیں کر سکتے۔۔۔ اور اسے دوا کی نہیں دعا کی ضرورت ہے۔۔۔ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ یہ کیا کہہ دیا آپ نے۔۔۔ ہم تو دعائیں مانگ مانگ کے تھک گئے۔۔۔ اسے تو شاید اب کسی کی بددعا ہی لگے تو کام آئے۔۔۔

" ڈاکٹر "ج" بھی چلے گئے۔۔۔ تیرا علاج ان کے بس میں بھی نہیں تھا۔۔۔ اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔۔۔

تیری کرتوتوں کی وجہ سے تو محلے بھر میں "بارہ سنگھا" اور "آنٹی عبداللہ" کے نام سے مشہور ہو گیا۔۔۔ آج تک تو نا میری سمجھ نہیں آئی اور نا ہی کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر کی، کہ تیرے سر پر سینگ کیسے نکل آئے۔۔۔ پیدا تو انسان ہوا تھا، لیکن انسان کے سر پر سینگ کب ہوتے ہیں۔۔۔  سب مجھے شک سے دیکھتے اور طرح طرح کی آوازیں کستے۔۔۔

بیٹا۔۔۔ میں عزت دار بندہ ہوں۔۔۔ جب تک زندہ ہوں حق حلال کی ہی کھاوں گا۔۔۔ تجھے بھی بہت سمجھایا۔۔۔ لیکن تو نہیں مانا۔۔۔ تو نے بھیجا جی اور ماسی بشیراں کی صحبت میں بہت پیسہ کما لیا۔۔۔ لیکن بیٹا، ہمیں تیرے پیسے کی ضرورت نہیں۔۔۔ بس تیرے بوڑھے باپ کی تجھ سے درخواست ہے کہ بیٹا اب بہت ہوگئی۔۔۔ اب تو سدھر جا۔۔۔ اب تو تو سیانا ہو گیا ہے۔۔۔ ہر اچھے بندے سے بھڑنا چھوڑ دے۔۔۔ آخر تیری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی۔۔۔ کہ جو تو، تیرابھیا جی اور تیری ماسی بشیراں سوچتی ہے، وہ ٹھیک نہیں ہوتا۔۔۔ آخر تو عقل کو تسلیم کیوں نہیں کرتا۔۔۔ کب تک تیری بے وقوفیاں برداشت کرتے رہیں گے۔۔۔ کب تک دنیا ہمیں تیرے نام سے طعنے دیتی رہے گی۔۔۔ آخر کب تک۔۔۔ بیٹا، ان بوڑھی ہڈیوں پر کچھ رحم کر۔۔۔ اور ہمیں بخش دے۔۔۔ ہم تیری وجہ سے بہت ذلیل ہو چکے۔۔۔ بس کر بیٹا۔۔۔ بس کر۔۔۔

تیرا بوڑھا قابلِ رحم باپ۔۔۔

ابو عبداللہ

18 Comments

  1. یہ ابو عبداللہ کہاں ٹکراگیا جی آپ کو؟ بیچارا تو بہت برے حال میں ہوگا۔ خیر اچھا کیا جو اس کا خط شایع کردیا۔ اللہ آپ کو اجرعظیم سے نوازے اور اس کے بیٹے کو ماسی کے چنگل اور بھائی کے سحر سے آذاد کرے۔۔۔۔ ;-)

    ReplyDelete
  2. عنیقہ بالکل سچ کہتی ہیں واقعی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے!!!!
    ان مومنین کے کرتوت دیکھیں اور واہ واہ کریں ،
    یہ ہے وہ لنک جو اس منافق اعظم اور جاہل اعظم نے لگایا!
    بظاہر یہ 23 مئی 2011
    ڈان اخبار ہے!
    http://www.dawn.com/2011/05/23/2009-us-assessment-of-karachi-violence.html
    اسے کھولنے پر اوپر بلوگ اور فورم بھی لکھا نظرآتا ہے!
    اور یہ کوئی خبر نہیں بلکہ ایک بلوگ پوسٹ ٹائپ افواہ ہے!
    اور یہ ہے ،
    23 مئی 2011
    کا اصلی ڈان اخبار،
    http://www.dawn.com/postt?post_year=2011&post_month=5&post_day=23&monthname=May&medium=newspaper&category=37&categoryName=Front Page
    اب آپ ان دونون لنکس مین فرق ڈھونڈیئے،یہ آپ تمام حضرات کی ذہانت کا امتحان ہے!!!!!!
    :)
    اور پھر آپ حضرات اس ڈان مین وہ خبر ڈھونڈیئے جس کا لنک اس منافق اعظم نے لگایا ہے!
    مجھ کم نظر کو تو نظر نہیں آئی،شائد آپلوگوں کو دکھ جائے!!!!!
    :)
    یہ جھوٹے اور ایجینسیوں کے کتے مجھے گھر پہنچا رہے تھے!!!!
    اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنا بڑا جھوٹا ہے اور کون کس کو گھر پہنچاتا ہے!!!!
    :)
    ویسے یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں ،
    ایجینسیون کے پے رول پر بھونکنے والے ،
    ایسی جھوٹی خبریں ہمیشہ سے ہی ایم کیو ایم کے خلاف بنابنا کر پھیلاتے رہے ہیں!
    کبھی واشنگٹن پوسٹ لاہور سے چھپنا شروع ہوجاتا ہےتو کبھی لندن پوسٹ!!!
    :)
    ہمیشہ انکا جھوٹ انہی کے گلے میں آکر پڑتا ہے مگریہ بے غیرت اپنی ذلالتون سے باز آنے والے کہاں!
    میں یہ تبصرہ اور بھی کئی بلاگس پر پوسٹ کررہا ہوں اگر تم نے نہیں چھاپا تب بھی سب کو لگ پتہ جائے گا،
    کیاسمجھے!!!!

    ReplyDelete
  3. ابو عبداللہJune 9, 2011 at 10:33 PM

    باز آ جا میرے بچے باز آ جا تجھے مائی چھپکلاں کا واسطہ باز آ جا

    ReplyDelete
  4. عمران بھائی !

    ابو عبداللہ کوئی شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ورنہ اسطرح کے باپ اسطرح کے منافق بیٹے کے بارے میں آخر یوں لکھتے ہیں۔

    یہ ناخلف ۔ نامراد، جہاں کہیں پایا جائے اور جس کسی کو ملے وہ اسے اسی وقت "دو لِتر" لگا کر ثواب دارین کمائیں۔ اور جس سے اس کا واسطہ صبح شام پڑے یا گلی محلے میں گرا پرا ملے تو اس پہ فرض ہے کہ وہ اسے صبح و شام "دو لتر" لگا کر اس غریب باپ کا دل خوش کرے۔

    (ویسے آپس کی بات ہے جتنی اسکی "ترپڑار" ہر جگہ ہر روز ہوتی ہے اگر اسمیں بے چارے بوڑھے باپ کا رتی برابر بھی احساس ہوتا۔ تو یہ کب سے آنٹی کی ٹیوشن اور بھائی کے بھاشن سے توبہ کر چکا ہوتا۔)

    ReplyDelete
  5. قارئین اگر آپ ڈان کی ویب سائیٹ کھولیں تو نیوگیشن میں ان کی تمام نیوز کی کیٹگریز آرہی ہوتی ہیں جن میں بلاگز، فورم اور میڈیا گیلریز وغیرہ شامل ہوتی ہیں. یاد رہے کہ ڈان کا آن لائن ایڈیشن روزانہ کے اخبار سے مختلف ہوتا ہے.

    ڈان نے وکی لیکس کے اشتراک سے پاکستان سے متعلق امریکی عہدیداروں کے خفیہ مراسلے شایع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یہ گاہے بگاہے اپنی ویب سائیٹ پر اسے شایع کررہا ہے. اس میں ڈان مکمل متن کو من و عن شایع کردیتا ہے جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ مراسلہ کس کس تو بھیجا گیا ریفرنس نمبر وغیرہ۔۔۔۔ پہلا لنک اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کی وجہ سے بارا سنگھے کے بھائی اور انکے چیلے ننگے ہوگئے....

    روزنامہ ڈان اور دوسرے اخبارات اسے بحیثیت خبر کے شایع کرتے ہیں. اب بارا سنگھے نے جو دوسرا لنک دیا ہے اس کو کھولیں تو اس میں تیسری خبر ہے ‘Armed gangs outnumber police in Karachi’ تو اب جس کا دل چاہے وہ اس خبر میں ساری کہانی پڑھ لے۔

    بیچارا باراسنگھا۔۔۔۔۔
    افسوس ذرا جلد بازی دیکھا گیا۔ یار عنیقہ جی سے مکمل تحقیق تو کروالیتا۔۔۔۔۔ :mrgreen:

    ReplyDelete
  6. یار آنٹی عبداللہ یا آنٹی عابدہ اور کتنا بے عزت ہوگا بھائی تو؟ خیر تم لوگوں کے نزدیک تو عزت آنی جانی چیز ہے بس بندے کو ڈھیٹ یا بھائی لوگ ہونا چاہیے۔ ;-)

    ReplyDelete
  7. اللہ نہ کرے کے کسی کی اولاد ایسی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب یہ بھائی کی گود میں بیٹھ گیا ۔۔۔ تو بس اب سواَئے دعا کہ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ لکھا ہے عمران :ڈ

    ReplyDelete
  8. http://www.dawn.com/2011/05/23/armed-gangs-outnumber-police-in-karachi.html
    تبصرے میں لنک کام نہیں کررہا ہے اس لیے یہاں لگارہا ہوں۔ عمران بھائی معذرت کے ساتھ۔ یا آپ پچھلا تبصرہ ایڈٹ کرکے اس میں یہ لنک لگا دیں اور اسے ڈیلیٹ کردیں۔۔۔

    ReplyDelete
  9. پوسٹ پر کچھ غیر متعلقہ تبصرہ جات پوسٹ کا حسن خراب کر رہے ہیں :D

    ReplyDelete
  10. ابو عبداللہJune 10, 2011 at 4:02 AM

    میرے جگر گوشے، تو پھر دوسروں کے معاملوں میں ٹانگ اڑا رہا ہے... تو پھر فحش اور لغو زبان استعمال کر رہا ہے... اور میرے سمجھانے کے باوجود تو "بھیا جی" کے حق میں بول رہا ہے...
    چل میں ہارا... تو جیتا... بس یہ بتا دے... کہ میں تیرا باپ ہوں... یا بھیا جی... بتا دے...
    جا میں تجھے شڑاپ دیتا ہوں کہ تو ماسی بشیراں کی تیزابیت سہتا رہے... ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ...

    ReplyDelete
  11. وقار بھائی!

    علم نہیں یہ کس کو بے وقف بناتے ہیں؟ عقل کے اندھوں اور کانوں سے بہروں کو بھی اس بات کا علم ہے۔ مگر یہ بجائے اس بات کو تسلیم کرنے الٹا اسے ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ تو اس پہ کتنے در شباش ملنے چاہئیں؟۔

    دوستوں سے گزارش ہے زرا حساب تو لگائیں؟؟

    ReplyDelete
  12. آئیے سب ملکر دعا کریں .... ;-( ;-( ;-(

    ReplyDelete
  13. اوئے پنجابیوں ابو عبد اللہ نے کیا ظلم کیا اس کا بھی پتہ کیا؟
    آج عبد اللہ بیچارے نے چاچی ھندہ والی پوسٹ پر ایک نئی خبر دی ہے۔
    آج کے بعد میں اس عبداللہ پر رحم کیا کروں گا۔۔۔
    چچ ۔چچ ،،چچ۔ بیچارہ

    ReplyDelete
  14. عمران اقبالJune 12, 2011 at 1:40 AM

    عبداللہ واقعی پاگل ہو گیا ہے۔۔۔ اب اپنی ذاتیات بھی باہر دنیا کو بتانے کی کیا تک ہے بھلا۔۔۔ اللہ ہی سمجھے اس پاگل انسان کو۔۔۔

    ReplyDelete
  15. معاف کرنا یار، میں ایک ذہنی مریض ہوں۔۔۔ اور اپنے باپوں اور استادوں کے مظالم کا شکار ہوں
    میری بیوی بھی ذہنی مریضہ ہے، اور ہم مل کر بچوں کے لیئے مرے پر سو درے ثابت ہوتے ہیں

    ReplyDelete
  16. عمران اقبالJune 12, 2011 at 4:07 AM

    عبداللہ۔۔۔ تو تم اپنے "باپوں اور استادوں کے مظالم" کا بدلہ ہم سے کیوں لے رہے ہو۔۔۔ اگر بیوی گھر میں سکون نہیں لینے دیتی۔۔۔ تو کوئی دوسری کر لو۔۔۔ لیکن ہماری جان بخشو یار۔۔۔ اب تو تمہارے ابو جان بھی ہم سے معافیاں مانگتے مانگتے تھک گئے ہیں۔۔۔ ہمارا نہیں تو اپنے ابو کا ہی خیال کر لو۔۔۔ شریف آدمی بیچارے کو کس عمر میں رسوا کر رہے ہو۔۔۔

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔