کوئی سمجھائے مجھے۔۔۔
حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے۔۔۔؟
سنت وہ عمل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔۔۔
حدیث وہ الفاظ، احکامات یا ارشادات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے۔۔۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل کیا۔۔۔ ان کا حکم نہیں دیا۔۔۔؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا۔۔۔ خود اس پرعمل نہیں کیا۔۔۔؟
کیا نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل میں تضاد تھا۔۔۔؟
اگر ایسا نہیں ہے جو میرے جیسا جاہل سمجھ رہا ہے تو کیوں ہم سنت اور حدیث کو مختلف ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔۔
خدا کے واسطے کوئی تو سمجھائے مجھے۔۔۔
16 Comments
Ye to aap ne bara tafsili mozo cher diya
ReplyDeleteیہ تو جب ہوتا ہے جب کوئی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteاور میرے خیال سے یہ سوال کسی مفتی سے پوچھو وہ تم کو تسلی بخش جواب دیگا
ورنہ یہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو معازاللہ اسکا بھی مذاق اور تمسخر اڑانے سے باز نہیں آئے گا
دین کو اتنا مشکل کر دیا گیا ہے کہ اگر کچھ بھی کرنا چاہیں تو ہمیں براہ راست اس موضوع کے سپیشلسٹ کی طرف کنسلٹ کرنا پڑتا ہے۔ اب سپیشلسٹ نے اپنی سپیشلائزیشن کے اخراجات کو بھی تو پورا کرنا ہے نا اور دوسروں کی برائی بھی، کہ اپنی دکان کا مال زیادہ بکے۔۔۔
ReplyDeleteمحمد سعيد پالنپوری صاحب اس کا ماشاء اللہ مکمل جواب دے سکتے ہيں ۔ ميں اُن کے حق ميں دستبردار ہوتا ہوں
ReplyDeleteشاکر عزیز صاحب نے میرے سوالات کا جواب اپنے بلاگ پر مفصل طریقے سے بیان کیا ہے۔۔۔ لنک یہ ہے۔۔۔
ReplyDeletehttp://awaz-e-dost.blogspot.com/2011/06/blog-post.html
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ رہا میرا تبصرہ جو ان کے بلاگ پر میں نے کیا۔۔۔
"جناب آپ کی ایک مثال پلے پڑ گئی۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔
میرا سوال کچھ یوں تھا۔۔۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل کیا۔۔۔ ان کا حکم نہیں دیا۔۔۔؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا۔۔۔ خود اس پرعمل نہیں کیا۔۔۔؟
ان سوالات میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال اور فرمودات کے بارے میں آپ سب سے پوچھا گیا تھا۔۔۔ نا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم تک پہنچائے گئے واقعات کے بارے میں۔۔۔"
حدیث کہتے ہیں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کو ، تقریر کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی نے کوی بات کی یا کوی کام کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے وہ بات سنی اور اس کام کو دیکھا لیکن اس سے منع نہیں فرمایا تو یہ بھی حدیث ہے، کیونکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے خاموش رہ کر اسکا جواز ثابت فرما دیا ۔
ReplyDeleteکچھ محدثین کے نزدیک حدیث صرف قول پر اور سنت تین یعنی قول فعل اور تقریر پر بولا جاتا ہے ، سنت کی تعریف یہ ہے کہ ما واظب علیہ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یعنی جس پر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے مواظبت فرمای ہو اور دوام ثابت ہو ۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر کہ علیکم بسنت و سنت خلفاء الراشدین والمہدین خلفاء راشدین کی سنت کو بھی امت کے لیے سنت کا درجہ دے دیا ۔
ایک چیز سنت موکدہ بھی ہوتی ہے ، علامہ عبدالحئی لکھنویؒ نے اپنی ایک کتاب (نام مجھے اس وقت یاد نہیں) میں سنت کی بہت سی تعریفات کی ہیں اور سب کو رد کیا ہے آخر میں ما واظب علیہ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم او خلفاء الراشدون کو پسند فرمایا ہے یعنی جس پر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین نے مواظبت فرمای ہو ۔
اسی طرح بہت سے اعمال جو حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں لیکن انکو سنت اور سنت موکدہ کا درجہ نہیں دیا گیا ۔
انکل ٹام۔۔۔ سنت کی مزید تفصیلات میں جانے کی بجائے۔۔۔ اگر وہ سنتیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔۔۔ اور وہ احادیث جو احکامات کی صورت میں ہیں۔۔۔ ان پر روشنی ڈالیں۔۔۔ تو کیسا رہے گا۔۔۔؟
ReplyDeleteآج کل بلاگز پر اسی پر تو زیادہ بحث چل رہی ہے۔۔۔ آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ میرا اشارہ کس کس بلاگر کی جانب ہے۔۔۔
اور مجھے یہ بھی قوی امید ہے کہ آپ اس بارے میں میری رائے بھی بخوبی جانتے ہیں۔۔۔
اس سلسلہ ميں ميں نے آج اپنی ايک پرانی تحرير سے اقتباس نقل کيا ہے
ReplyDeleteکسی کی تفسیر کو معتبر سمجھنا یا نہ سمجھنا تو ایک الگ بحث ہے لیکن یہ پہلی بار پتہ چلا کہ مولانا مودودی اوہ معذرت [بغض و عناد کی وجہ سے مخالفین کو مولانا نہیں لکھا جاسکتا] مودودی صاحب کی تفہیم القرآن سید قطب شہید کی فی ظلال القرآن کا ترجمہ ہے۔
ReplyDeleteلوگ باگ الزام لگاتے ہیں کہ سید قطب نے نظریات مودودی صاحب سے مستعار لیے۔ عدالتی ٹرائل کے دوران ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ موصوف دہشت گردی کو ہوا دینے والے مودودی کے نظریات کا پرچارک ہے۔ لیکن یہاں یہ پہلی دفعہ پتہ چلا کہ مودودی صاحب نے تو چھاپہ لگایا تھا۔ خیر سے مودودی صاحب نے وکی پیڈیا کے مطابق 1942 سے 1972 کے دوران تفہیم القرآن لکھی اور درمیان میں وقتاً فوقتاً مختلف حصے شایع ہوتے رہے اور فی ظلال القرآن 1951 سے 1965 کے دوران جیل میں لکھی گئی۔
ہمارے ایک عالم نے اپنی ایک کتاب میں سنت و حدیث میں فرق بہت خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے، میں اسے نہایت اختصار کے ساتھ یہاں لکھتا ہوں، امیدہے آپ کے سامنے فرق واضح ہوجائے گا۔
ReplyDeleteسنّت کسے کہتے ہیں؟
ہم اپنے روزمرہ کے کاموں پر نظر دوڑائیں تو پتا چلے گا کہ ہم اپنے کاموں کو دو حصّوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک وہ کام جو ہم عادةً کرتے ہیں۔اور ایک وہ کام جو کبھی کبھی اور ضرورتاً کرتے ہیں۔ ۔یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کام بھی ان دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ کچھ کا م آپ عادةً فرماتے تھے اور کچھ کام ضرورةً فرماتے تھے۔اب ہمارے سامنے حدیث میں دونوں کاموں کا تذکرہ آئے گا۔ ۔سنت والے کا م کا بھی اور عادت والے کام کا بھی۔ اب ان میں سے ہم نے تابعداری کن کاموں کی کرنی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمادیا علیکم بسنّتی ۔وہ جو میں عادةًکام کرتا ہوں ان کی تابعداری کرو
کیونکہ سنت کا معنیٰ ہے "چلنے کا راستہ" اورچلنے کا راستہ وہی ہوتا ہے جس پر آنا جانا معمول کا حصہ ہو، ضرورت والے کام معمول کا حصہ نہیں اسی لیے انہیں سنت نہیں ۔
اس بات کو ایک دو مثالوں سے سمجھیں
پہلی مثال :
ہم روزانہ وضو میں کلّی کرتے ہیں۔ حدیث کی کتابوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مبارک عادت کا تذکرہ ہےکہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ وضو میں کلی فرماتے تھے۔ اب احادیث کی کتابوں میں ایسی حدیث بھی ملتی ہیں کہ وضوکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی سے بوس وکنار بھی فرمایا ہو۔ یہ عادت نہیں تھی بلکہ ضرورت تھی۔(کیونکہ پیغمبر پر مسئلہ سمجھانا بھی ایک ضرورت ہو تی ہے کہ کہاں تک وضو ہے اور کہاں تک ٹوٹ گیا)۔
اب ہمارے سامنے ہے کہ وضو کے بعدبیوی سے بوس و کنار کی حدیث آتی ہے۔لیکن آپ لوگوں نے زندگی میں جتنے وضو کیے تو کیا جس طرح آپ ہر وضو میں کلی کرتے ہیں کیا اسی طرح ہر وضو کے بعد بیوی سے بوس و کنار بھی کرتے ہیں؟
اور اگر نہیں کرتے تو کیا آپ کو دل جھنجھوڑتا ہے کہ آج سنّت کا ثوا ب نہیں ملا؟
آخر کیوں؟
وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے اور یہ بھی ۔فرق کیا ہے کہ وہ(کلی کرنا)صرف حدیث نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ ہے اوریہ صرف حدیث ہے۔ہمیں حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کو اپنانے کا۔اس لیے ہم وضو کریں گے کلی کریں گے اور نماز پڑھیں گے۔ یہ ہوا سنت پر عمل ۔ اور اگر ہم وضو کر کے بیوی سے بوس و کنار کریں گے تو یہ ہے حدیث پر عمل نہ کہ سنت پر۔
دوسری مثال :
بخاری ومسلم میں حدیث موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔جوتے اُتار کر نماز پڑھنے کی حدیث بخاری ومسلم میں بالکل ہی نہیں ہے بلکہ ابو داﺅد شریف میں ہے۔لیکن کیونکہ جوتے اُتار کر نماز پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی ۔اس لیے امت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی عادت کو اپنایا اور اسی لیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق جوتے اُتار کر نماز پڑھتے ہیں اگرچہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کی احادیث بخاری ومسلم میں موجود ہیں ۔یہ ہے سنت اور حدیث میں فرق۔
اسی طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی حدیث بخاری ومسلم میں موجود ہے جبکہ بیٹھ کہ پیشاب کرنے کی حدیث بخاری ومسلم میں بالکل ہی نہیں بلکہ ترمذی وابو داﺅد میں ہے۔لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کو امت نے عادةً ہی اپنایا ۔اور ساری امت بیٹھ کر پیشاب کرتی آ رہی ہے۔
سابقہ مثالوں سے معلوم ہو گیا جو بات بھی حدیث میں آجائے ضروری نہیں کہ وہ سنت بھی ہو۔چند مزید نکات:
1 - ہر سنت کا حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے مگر ہر حدیث کا سنت ہونا ضروری نہیں۔
2 - اس طرح حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے مگر سنت کبھی ضعیف نہیں ہوتی۔
یہ فرق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر عصرِحاضر کے علماء تک ملحوظ رکھا آرہا ہے،اور اہل سنت کے تمام مسالک کے حضرات تسلیم کرتے ہیں، اس قسم کے فرق کو سمجھنے کے لیے جو علم ، فطری فہم اور ایمانی فراست درکارہوتی ہے اسے علم الفقہ ہے۔
قارئین کے لیے اسی سلسلے کی ایک اور بہترین تحریر، جناب افتخار اجمل صاحب کے بلاگ سے...
ReplyDeletehttp://www.theajmals.com/blog/2011/06/%D8%B3%D9%8F%D9%86%D9%91%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D8%AF%D9%8A%D8%AB-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%DA%A9%D8%B1%D8%A7%D8%B1/
افتخار اجمل صاحب اس ذرہ نوازی پر سوائے دعا کے اور کیا کہوں۔ جزاک اللہ خیرا فی الدارین
ReplyDeleteصحیح مشورہ تو وہی ہے جو ضیاء نے دیا کہ یہ سوالات کسی مفتی سے کرنے چاہئیں۔ البتہ اگر اس موضوع پہ ہم گفتگو کرلیں سیکھنے سکھانے کے مقصد سے تواس میں میرے خیال سے کوئی حرج نا ہونا چاہئے۔ گفتگو کا مطلب یہ کہ فتوی دئے بغیر کچھ معلومات کا تبادلہ ہوجائے۔آپ میری باتوں پہ تنقیدی نگاہ ڈالیں اور میں آپکی.
آپ کی یہ پوسٹ کئی سارے سوالات رکھتی ہے۔ سب کو الگ الگ دیکھتے ہیں
1: حدیث اور سنت میں فرق ہے؟
جی ہاں فرق ہے مگر یہ فرق کالا اور سفید جیسا نہیں ہے کہ دونوں کبھی یکجا ہو ہی نہیں سکتے ان میں جو فرق ہے وہ ایسا ہے جیسے سفید اور جانور۔ کہیں دونوں یکجا ہوجائیں گے جیسے بگلا سفید بھی ہوتا ہے اور جانور بھی ۔ کہیں پہلا ہوگا دوسرا نہیں جیسے سفید کپڑا سفید تو ہے مگر جانور نہیں. اور کہیں دوسرا ہوگا مگر پہلا نہیں جیسے بھینس جانور تو ہے مگر سفید نہیں ہے۔ حدیث اور سنت بھی ایسے ہی ہیں کہ کہیں یہ دونوں یکجا ہوجائیں گے
کہیں حدیث ہوگی سنت نہیں اور کہیں سنت ہوگی مگر حدیث نہیں۔ سب کی مثالیں اگر آپ چاہیں گے تو دے دی جائیں گی۔
2:سنت اور حدیث کی تعریف کیا ہے؟
آپ نے بھی دونوں کی تعریف کی ہے اس میں حدیث کی تعرف تو صحیح ہے مگر سنت کی نہیں کیونکہ اگر آپ کی تعریف کو درست مانا جائے(سنت وہ عمل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔۔۔) تو پھر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا سنت ہونا چاہئے کیونکہ آپ ؐ نے یہ عمل کیا ہے چاہے ایک دفعہ ہی صحیح ۔ سنت کی تعریف صحیح نہ ہونے کی وجہ سے سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں اور حضور ؐ کے قول و عمل میں تضاد نظر آتا ہے جیسا کہ آپ بھی آگے سوال کر رہے ہیں۔ (میں تعریف آگے کروں گااس پر آپ کو اعتراض کا حق ہوگا)
3: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل کیا۔۔۔ ان کا حکم نہیں دیا۔
جی ہاں ایسا ہوا ہے ۔ مثال اوپر گذری کہ آپؐ نے خود کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا ہے مگر ایسا حکم آپؐ نے امت کو نہیں دیا۔(اس پر یہ سوال کھڑا ہو گا کہ پھر آپؐ نے خود ایسا کیوں کیا اس کا جواب آپ کہیں گے تو دے دیا جائے گا۔
4: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا۔۔۔ خود اس پرعمل نہیں کیا۔۔
جی ہاں ایسا بھی ہوا ہے ۔ بخاری کی روایت ہے آپؐ نے فرمایا:صلوا قبل المغرب:مغرب کی نماز سے پہلے نفلیں پڑھو۔ آپؐ اگر چہ نفل پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں مگر خود آپؐ نے مغرب سے پہلے یہ نفل کبھی نہیں پڑھے۔ یہاں بھی وہی اوپر والا سوال کھڑا ہوگا کہ پھر ایسا کہا کیوں دیا۔
5:کیا نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل میں تضاد تھا۔۔۔؟
اگر آپ احادیث کا سرسری مطالعہ کریں گےتو ایک نہیں کئی جگہ آپکو تضاد نظر آئے گا. ماہرین نے انہیں تضادات کو ختم کرنے کیلئے اپنی ساری عمریں اس خار دار وادی میں گذار دی ہیں۔
فالحال بھائی اتنا ہی وقت ملا
لگتا ہے یہ بات قصرانی صاحب کو بہت معمولی سی لگتی ہے
ReplyDeleteان کی نگاہ میں کوئی بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر دماغ کا غیر معمولی علاج کر سکتا ہے
محلے کے بخار والے ڈاکٹر سے یہ آنکھ چیک کر وا کر آنکھ کا آپریشن کروالیں گے
گر ہان تو یہ ان کی سوچ ہے یہ دین کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں
اور اگر نہیں تو پھر دین کے لئے کسی بھی عالم کے پاس جانے سے گھبراہٹ کیسی؟
جانے آپ کون سے عالم کے پاس جاتے ہیں جو کسی بھی مسلمان کو ایسے ہی برا کہہ سکتا ہے اپنا نظریہ درست کیجئے
اسلام سادہ سا دین ہے اور سادی ہی باتیں ہیں
سنت اور حدیث میں اتنا ہی فرق ہے جتنا شعور اور فہم و ادراک میں
مطلب و معنی خود تلاش کیجئے
اوہ میں آپکا مقصد اور پوسٹ کی شان نزول سمجھنے میں چوک گیا ڈاکٹر صاحب کی پوسٹ کے بعد سمجھ میں آیا ہے.ذہنی پراگندگی کیلئے معذرت خواہ ہوں
ReplyDeleteبسم اللہ الرحمن الرحیم
ReplyDeleteسب سے پہلے تو سب قارئین اور مبصرین کا بہت شکریہ کہ آپ سب نے اپنے اپنے علم کے مطابق مجھ جیسے جاہل انسان کو کچھ نا کچھ سکھا ہی دیا۔۔۔ بے شک مجھے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل عطا فرمائی ہے اور اچھے برے کی تمیز سکھائی ہے۔۔۔ قرآن اور حدیث و سنت کی روشنی میں ہمارے لیے ضابطہ حیات مقرر کیا۔۔۔ اب کئی مسائل ایسے ہیں جو مختلف احادیث میں ہیں۔۔۔ اور سنت میں ہمیں ان کی مختلف مثال ملتی ہے۔۔۔ میرا ماننا یہ ہے کہ بجائے اسے تنازعہ بنانے کے، کیا ہم یہ سوچ کر اس پر عمل نہیں کر سکتے کہ اس حدیث یا سنت پر عمل کرنے سے اگر مجھ پر، میرے معاشرے پر اور میرے ایمان پر کوئی مسئلہ نہیں آتا تو میں اسے اپنا لوں۔۔۔ اور اس پر صدقِ دل سے عمل کروں۔۔۔ ۔نقصان تو کسی نا نہیں ہو رہا۔۔۔
کیا ضروری ہے کہ جو بات مجھے پسند ہے وہ دوسروں کو بھی پسند ہو اور وہ بھی اس پر ہی عمل کریں۔۔۔ جی نہیں۔۔۔ یہ بلکل ضروری نہیں۔۔۔ کیا ہم سائنس اور فلسفے کی بنیاد پر اپنے قرآن، حدیث اور سنت پر انگلیاں اٹھانے کی جسارت کر سکتے ہیں۔۔۔ کیا ہم یہ ایمان نہیں بنا سکتے کہ جو اللہ نے ہمارے لیے حکم دیا ہے۔۔۔ اسے کرنے میں ہماری کوئی نا کوئی بھلائی اور اللہ تعالیٰ کی کوئی نا کوئی مصلحت ضرور ہو گی۔۔۔ کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم بال کی کھال اتاریں۔۔۔ اور عاقبت اندیشی کی آخری حدوں کو بھی پار کر جائیں۔۔۔
آخر میں، بنیاد پرست بھائی، سعید پالن پوری صاحب، میرے پیارے انکل ٹام اور اجمل انکل کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے وقت نکال کر مدلل اور بہترین جوابات سے نوازا۔۔۔
تحریم اور ضیا بھائی۔۔۔ آپ کے تبصروں کا بھی بہت بہت شکریہ۔۔۔
میری گزارش ہے چند بلاگر حضرات سے۔۔۔ کہ خدا کا واسطہ، یہودیوں کے پیروکاروں کی طرح ہمارے مذہب کو مزید کمپلیکیٹڈ مت کریں۔۔۔ یہ بڑا سادہ دین ہے۔۔۔ اسے کے بارے میں آسانیاں لکھیں۔۔۔ نا کہ مشکل دین کے طور پر اس کی تشہیر کریں۔۔۔
[...] سنت اور حدیث میں فرق۔۔؟؟؟ [...]
ReplyDeleteاگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔