زینب اور یہ دنیا


مجھے یہ دنیا پسند نہیں۔۔۔ بلکل بھی پسند نہیں۔۔۔ یہ دنیا رہنے قابل نہیں۔۔۔ یہ دنیا میرے، آپ کے اور کسی کے بھی بچوں کے رہنے کے قابل نہیں۔۔۔ نا یہ دنیا اچھی۔۔۔ اور نا زندگی اچھی۔۔۔ نا سانس اچھی۔۔۔ نا موت اچھی۔۔۔ یہ دنیا کیسی دنیا ہے۔۔۔ جو فرشتہ صفت بچوں تک نا بخشے۔۔۔ یہ دنیا کیسی دنیا ہے جو اچھوں کواچھا نا رہنے دے۔۔۔ اور بروں کو مزید برا بنا کر اچھے والا برا بنا دے۔۔۔ یہ دنیا گھٹیا دنیا ہے۔۔۔ ہماری گِدھوں سی زندگی اور کتوں سی موت۔۔۔ کیا ہمارا خدا نے ہمیں یہی دنیا، یہی زندگی اور ایسی ہی موت دی تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ اس خوبصورت دنیا کو بدصورت ترین ہم نے بنایا۔۔۔ اپنی بھرپور زندگی سے بدتر موت تک کا سفر ہم نے خود تعین کیا۔۔۔ بلکہ ہم نے نہیں۔۔۔ ہمارے لیے دوسروں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہمیں ایسی دنیا، ایسی زندگی اور ایسی موت دینا چاہتے ہیں۔۔۔ اور ہم نے ان کے فیصلے کو غلاموں کی طرح قبول کیا اور پھر جی لیا۔۔۔ افسوس۔۔۔ افسوس کہ پھر بھی جینا پڑتا ہے۔۔۔




زینب میری علیزہ تھی۔۔۔ میری عنایہ تھی۔۔۔ میری ارھاء کی طرح خوبصورت اور معصوم تھی۔۔۔ میں نے اور میرے جیسوں نے میری زینب۔۔۔ میری علیزہ۔۔۔ میری عنایہ اور میری ارھاء کے لیے ایک گھٹیا دنیا کا انتخاب کیا ہے۔۔۔ اور ہم آنکھیں بند کیے کہ یہ سوچے جا رہے ہیں کہ جو آج زینب اور زینب جیسے سینکڑوں معصوم بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کل میرے اور آپ کے بچوں کے ساتھ نا ہوگا۔۔۔ ہوگا۔۔۔ ضرور ہوگا۔۔۔ شاید وہ نا ہو جو میری زینب کے ساتھ ہوا۔۔۔ لیکن زیادتی۔۔۔ کسی بھی نوعیت کی۔۔۔ ہوگی۔۔۔ ہوتی رہے گی۔۔۔ لیکن تب تک ہم جیسے خود بے حس ہیں۔۔۔ اسی طرح اپنے بچوں کو بھی بے حس بنا چکے ہوں گے۔۔۔ انہیں سُن کیے ہوئے جسم کے اس حصے کی طرح بنا چکے ہوں گے جہاں زخم بھی لگے تو احساس نہیں ہوتا۔۔۔

افسوس ہم، اپنے بچوں کو ایک اچھی دنیا اور اچھی زندگی نا دے سکے۔۔۔ اللہ ہم سے سوال پوچھے گا۔۔۔ اور ہمارے پاس سوائے شرمندگی، پشیمانی کے کوئی اور جواب نا ہوگا۔۔۔ تو انتظار کریں اس وقت کا جب ہم اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔۔۔ بشرطیکہ آپ اللہ کو مانتے ہیں۔۔۔ اور روزِ جزا پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔


کبھی ہم بھی خوبصورت تھے۔۔۔
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت۔۔۔
سانس ساکن تھی۔۔۔
بہت سے اَن کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے۔۔
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر۔۔۔
دُور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے۔۔۔
جو ہم سے دُور تھے لیکن ہمارے پاس رہتے تھے۔۔۔
نئے دن کی مسافت۔۔۔
جب کِرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی۔۔۔
تو ہم کہتے تھے… امی۔۔۔
تتلیوں کے پَر بہت ہی خوبصورت ہیں۔۔۔
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو۔۔۔
کہ ہم کو تتلیوں کے' جگنوئوں کے دیس جانا ہے۔۔۔
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں۔۔۔
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ۔۔۔
کھڑکی سے بلاتی ہے۔۔۔
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو۔۔۔
کہ ہم کو تتلیوں کے' جگنوئوں کے دیس جانا ہے۔

1 Comments

  1. zainab jaisi hazaron bachian rozana aisi darindagi ka shikar hoti hain lekin ab media ki power sai shayed in ki madad ho sake. Allah har baiti ki hifazat kare.

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔