8 جون 2015
آج کا دن بھی سستی اور کاہلی میں گزرا۔۔۔ روز مرہ کی یہی روٹین بن چکی ہے۔۔۔ اماوس کی رات ڈھلتی نظر نہیں آتی۔۔۔ اور ڈھلے بھی کیسے، عوام کو یہ ثابت کر کے دکھانا ضروری ہے کہ ان کی کرتوتوں کا کرم انہیں صرف آخرت میں ہی نہیں۔۔۔ بلکہ ہماری حکومت میں بھی ملے گا۔۔۔ لیکن عوام بھی میری طرح "چُنی کاکی" ہی نکلی، وہ بھی سبق نہیں سیکھتی۔۔۔
آج حسب ِ معمول صبح سو کر اٹھا، شرٹ اتارنے ہی لگا تھا کہ سوچا، چلو رہنے دو۔۔۔ یہ جسم کسی کو دکھانے لائق تھوڑا ہے۔۔۔ دوڑ تو دور کی بات، میرے لیے تو اب دو قدم چلنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔۔۔ یاد آیا کہ اعوان روڈ کی ایک گلی میں بنی نئی نالی کے افتتاح کے لیے مدعو ہوں۔۔۔ عوامی خدمت ہو اور میری تصاویر اخباروں میں شائع نا ہوں، یہ ہو نہیں سکتا۔۔۔ تو بادل ناخواستہ اپاونٹمنٹ لینے کیمرہ مین کے کوارٹر کی طرف جانا پڑا۔۔۔ سانس تک پھول گئی، پسینے سے شرابور۔۔۔ افف گرمی۔۔۔ کوارٹر تک پہنچا ہی تھا کہ اندر سے عطااللہ عیسی خیلوی کے گانے کی آواز آئی۔۔۔ "جب آئے گا عمران۔۔۔ سب کی شان۔۔۔ بنے گا نیا پاکستان"۔۔۔ یہ سنتے ہیں میرے پسینے مزید چھوٹ گئے۔۔۔ غصے سے حالت پتلی ہو گئی۔۔۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو کیمرہ مین کا بیٹا لال اور سبز شرٹ میں ملبوس باہر نکلا۔۔۔ اس کا گریبان پکڑ کر اس سے اس کے باپ کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت تو گلگت بلتستان چلے گئے ، کسی "ارجنٹ" کام سے۔۔۔
بوجھل قدموں سے واپس پہنچا تو کلثوم اور مریم ناشتے کے میز پر میرا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ میری نظر مریم کے پہلو میں صفدر کو ڈھونڈتی رہی۔۔۔ پھر خود ہی خاموش رہا کہ اب بیٹی کے سامنے کیا گالیاں دوں داماد کو۔۔۔ جب بیٹی راضی تو کیا کرے گا ابا جی۔۔۔
"Shrek"دیکھ رہی تھی۔۔۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ Shrek ٹی وی آن کیا تو 80 انچ کے ایل ای ڈی پر مریم اپنے
اچانک سبز سے دودھیا سفید کیسا ہو گیا۔۔۔ اور کیا فیونا پر چھایا سحر ٹوٹ گیا ۔۔۔ اچانک مریم گویا ہوئی کہ پاپا آپ کی
شادی پر تو آپ بہت ہینڈسم لگ رہے تھے۔۔۔ احساس ہوا کہ کارٹون نہیں۔۔۔ میں خود ہوں۔۔۔ خود میں ہی شرمندہ ہوکر رہ گیا۔۔
اچانک سبز سے دودھیا سفید کیسا ہو گیا۔۔۔ اور کیا فیونا پر چھایا سحر ٹوٹ گیا ۔۔۔ اچانک مریم گویا ہوئی کہ پاپا آپ کی
شادی پر تو آپ بہت ہینڈسم لگ رہے تھے۔۔۔ احساس ہوا کہ کارٹون نہیں۔۔۔ میں خود ہوں۔۔۔ خود میں ہی شرمندہ ہوکر رہ گیا۔۔
کچھ ہی دیر میں چھوٹا بھی اپنے ننھے کے ساتھ ناشتہ کرنے پہنچ گیا۔۔۔ جانے کیوں چھوٹے کی اینڈکس انگلی بھی ہمیشہ کھڑی اور ہلتی ہی رہتی ہے۔۔۔ بے چارہ غریب چاہ کر بھی اپنی انگلی کنٹرول میں نہیں رکھ پاتا۔۔۔ خیر، کلثوم نے ننھے کو بِب باندھی اور نہاری اس کے آگے رکھ دی۔۔۔ چھوٹا جو کُن اکھیوں سے نہاری کو دیکھ رہا تھا اس نے اچک کر نہاری کا ڈونگا ننھے کے سامنے سے اٹھا لیا اور اپنا منہ شریف پورے کا پورا ڈونگے میں ڈال دیا۔۔۔ افف، کب سلجھیں گے یہ لوگ۔۔۔ پیسہ آ گیا لیکن رہے لوہار کے لوہار۔۔۔ اندر سے ایک آواز آئی کہ میں خود بھی تو لوہار ہوں۔۔۔ اور میں پھر سے خود میں ہی شرمندہ ہو کر رہ گیا۔۔۔
ابھی ناشتے سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے، سوچا کہ آج کلثوم سے رومانس کیا جائے گا۔۔۔ ویسے بھی نہ کوئی کام ہے کرنے کو اور اگر ہو بھی تو کہاں کچھ کرنے کا جی چاہتا ہے۔۔۔ خیر۔۔۔ بات ہو رہی تھی کلثوم کی۔۔۔ اہ سوری۔۔۔ رومانس کی۔۔۔ تو رومانس سے یاد آیا کہ طاہرہ سید بھی کیا غضب کا گایا کرتی تھی۔۔۔ اوہ سوری۔۔۔ بات ہو رہی تھی رومانس کی۔۔۔ تو کلثوم کے ساتھ کچھ وقت تنہا گزارنا چاہتاتھا ۔۔۔ کچھ اپنی کہنا چاہتا تھا ۔۔۔ کچھ اس کی سننا چاہتا تھا۔۔۔ کلثوم تو رہی سدا کی اللہ لوک۔۔۔ جو کہنا تھا مجھے ہی کہنا تھا۔۔۔ اللہ بھلا کرے مینا ناز کا، جس کے کتابیں پڑھ کر کچھ رومانٹک باتوں کی پرچی بنا لی تھی۔۔۔ جیب میں ہاتھ ڈالا کہ پرچی نکال سکوں اور کلثوم سے بات کر سکوں۔۔۔ تو یاد آیا کہ پرچی تو کل کی پہنی شلوار کی جیب میں تھی۔۔۔ اور شلوار، لانڈری میں۔۔۔ اب کیا کریں۔۔۔ خاموشی پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔۔۔ لمبی خاموشی۔۔۔ نہ اللہ لوک کچھ بولی۔۔۔ اور میرے پاس تو کچھ کہنے کو تھا ہی نہیں۔۔۔
اسی اثنا میں عطاالحق قاسمی صاب کا فون آ گیا۔۔۔ وہ جنگ کے دفتر سے بول رہے تھے۔۔۔ ان کی ڈیمانڈ تھی کہ بول جلد از جلد بند کیا جائے۔۔۔ میں نے چھوٹے سے مشورہ کیا۔۔۔ کہ کیا کریں۔۔۔ چھوٹا بولا۔۔۔ بھائی جان، شرط یہ رکھیں کہ جنگ والے سب مل کر کپتان کو گندا کریں۔۔۔ تو ہم بھی بول کو بند کرنے کا سوچیں گے۔۔۔ عطاءالحق قاسمی صاب ٹھرے "شریف" آدمی۔۔۔ ان کو پٹانا کیا مشکل۔۔۔ بس ایک بنک ٹرانسفر۔۔۔ اور پھر ہم جو چاہیں گے قاسمی صاب وہی کریں گے۔۔۔ دیکھا۔۔۔ ہمارے جیسا ہوتا ہے لیڈر۔۔۔ اور ایسا ہوتا ہے ہمارا ویژن۔۔۔
گلگت بلتستان اور منڈی بہاوالدین میں پولنگ شروع ہو چکی ہے۔۔۔ ہمارے آدمی جیت کا سب بندوبست کر چکے ہیں۔۔۔ بس ہمیں انتظار ہے عرفان صدیقی کا ۔۔۔ کہ کب وہ آئے اور ہماری وکٹری سپیچ لکھے۔۔۔ عجیب ہی خلقت ہیں عرفان صاب بھی۔۔۔ انہوں نے آتے آتے بھی بارہ بجا دیے۔۔۔ اور یہاں انتظا ر کی کوفت سے ہم "ہلکے" ہو جا رہے تھے۔۔۔ یہ بھی کیا بات ہوئی کہ وزیر اعظم پاکستان، ایک سپیچ رائٹر کا انتظار کریں۔۔۔ کاش ابا جی نے بچپن میں ہی میری پٹائی کی ہوتی تو میں کچھ لکھ پڑھ جاتا۔۔۔ اور بولنے سے پہلے نوٹس کا انتظار تو نا کرنا پڑتا۔۔۔
اس کے بعد قیلولہ کیا ۔۔۔ اور شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خدمت ، محنت اور گڈ گورننس پر تقریر کی خوب مشق کی۔۔۔ یہ تقریر میں نے آج اعوان ٹاون میں کرنی تھی۔۔۔ مشق کے بعد چھوٹے سے پوچھا کہ کہ کیسی لگی تقریر۔۔۔ تو چھوٹے نے کہا کہ میں تو اپنی انگلی قابو کرنے کے مصروف تھا۔۔۔ اب ایک ہی بات کتنی بار سنوں۔۔۔ میں آپ کا بھائی ہوں، پٹواری غلام نہیں کہ جو آپ کہیں اس کو پکڑ کر منہ متھا کھول دوں سب کا۔۔۔ چھوٹے کی صاف گوئی مجھے پانی پانی کر گئی لیکن پھر ننھے کو اپنی طرف گھورتا دیکھ کر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔۔۔
افتتاحِ نالی و گٹر ، اعوان ٹاون ۔۔۔ روانہ ہوا تو راستے سے ایک نیا کیمرہ مین پکڑ لیا۔۔۔ اور اسے ہدایت دی کہ کیمرہ صرف میرے اور چھوٹے پر فوکس ہونا چاہیے۔۔۔ چھوٹا تا اتنا جذباتی ثابت ہوا ہے کہ لانگ شوز بھی ساتھ لےآیا۔۔۔ ارادہ تھا کہ لانگ شوز پہن کر گٹر میں اتر کر تصویر کھینچوائے گا جو کل کے اخبار میں لگے گی۔۔۔ اب چھوٹے کے سامنے میری کہاں چلتی ہے۔۔۔ جوچاہے کرے۔۔۔
میرا ٹویٹر اور فیس بک سے کیا لینا دینا۔۔۔ مریم نے سوشل میڈیا غلاموں کی ایک بھاری فوج بنا رکھی ہے۔۔۔ جو سارا دن میرے لیے مخالفین کو ذلیل کرتے ہیں۔۔۔ مریم کی سب سے اچھی خوبی ہے کہ "مین مینجمنٹ" میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔ اس نے بتایا تھا مجھے کہ ہر بندے کو ٹیم میں بھرتی کرنے سے پہلے اس کی نفسیاتی ٹریننگ کی جاتی ہے، جس میں انہیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان سے اچھا کوئی نہیں سوائے ہمارے۔۔ ان سے زیادہ پڑھا لکھا اور کوئی نہیں سوائے ہمارے۔۔۔ ان سے اچھی اردو کوئی اور نہیں بول سکتا سوائے ہمارے۔۔۔ غرض یہ کہ ان میں ایک خاص قسم کی احساسِ برتری کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے۔۔۔ اور جب یہ بندے ٹویٹر پر بیٹھ کر میرا دفا ع کرتے ہیں۔۔۔ تو مجھے فخر ہوتا ہے کہ مریم نے کیا ہجڑوں کی فوج بنائی ہے جو ہمارے لیے اپنے ماں باپ کی عزت بھی بھول جاتے ہیں۔۔۔ واہ مریم واہ۔۔۔ تمہارے پاپا کو تم پر فخر ہے۔۔۔
اتنی مصروفیت کے بعد تھکاوٹ ہو گئی۔۔۔ تو سوچا آج جلدی سو جاوں۔۔۔ سونے کے لیے لیٹا تو خیال آیا کہ کافی عرصہ ہو گیاڈائری لکھے۔۔۔ لکھنے بیٹھا تو کچھ نا لکھ پایا۔۔۔ مجبورا عرفان صدیقی صاحب کو بلا کر ڈائری مکمل کی۔۔۔
آج کا دن بھی سستی اور کاہلی میں گزرا۔۔۔ روز مرہ کی یہی روٹین بن چکی ہے۔۔۔ اماوس کی رات ڈھلتی نظر نہیں آتی۔۔۔ اور ڈھلے بھی کیسے، عوام کو یہ ثابت کر کے دکھانا ضروری ہے کہ ان کی کرتوتوں کا کرم انہیں صرف آخرت میں ہی نہیں۔۔۔ بلکہ ہماری حکومت میں بھی ملے گا۔۔۔
شب بخیر۔
22 Comments
حقیقت کی صحیح عکاسی کی
ReplyDeleteبہت خوب صورت تحریر
intehai gattia tehrir hai jnb
ReplyDeletevery well written blog. they always make fun of Imran Khan, now its our turn
ReplyDeleteمیاں ساب بیچارے کا ماضی ہے ہی اتنا تابناک کہ بندہ اس کے علاوہ اور لکھ بھی کیا سکتا ہے۔
ReplyDeleteافسوس کہ یہ ریت پٹوار خانے نے شروع کی اور مجھے اب یہ سلسلہ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پتھر پھینکنے والے دوسروں کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے۔
بہت اچھا بلاگ لکھا ہے آپ نے
ReplyDeleteنواز شریف اتنا کند ذہن شخص ہے سب اچھی طرح جانتے ہیں
واہ زبردست
ReplyDeleteلکھنے کی طرف دوبارہ توجہ دینے کا شکریہ
آپ کی تحاریر کا انتظار رہتا ہے
اب لکھتے رہیے گا
ہاہاہا عمران بھائی مزا آگیا۔ مالشوروں کے اگر نام بھی لکھے ہوتے تو پہچاننا سہل ہو جاتا۔ بھئی واہ کیا منظر کشی کی ہے۔ مبارکباد۔
ReplyDelete'مین مینیجمنٹ' نے مجھے ہنسا ہنسا کر دوہرا کردیا۔ اتنے سارے 'مینوں' کو مینیج کرنا آسان کم نہیں ہے بھائی جان لیکن بے بی ڈول کو کافی پریکٹس ہے۔
ReplyDeleteعمران خان نے تو رکھا ہوا ہی تھا اب عمران بھائی نے بھی پٹواریوں کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ زبردست بلاگ ہے۔ اس کو بلاگ آف دی ائیر کا ایوارڈ ملنا چاہیئے۔
ReplyDeleteمجھے یقین ہے کہ جس طرح میاں صاحب اپنی شادی کی وڈیو اور Shrek کے کارٹون میں تمیز نہیں کر پائے اسی طرح یہ بلاگ ان کو اپنی حقیقی ڈائری ہی لگے گا. ....
ReplyDeleteکنکری کا جوابی ڈرون ...
بہت اچھا لکھا گیا ھے
ReplyDeleteانکی لوہاروں کی اوقات بھی یہی ھے
پیسہ آگیا مگر اندر کا لوہار پنا نہ گیا
مزا آیا
جب میاں ساب نے گانا سنا آئے گا عمران
اور مزید پسینی چھوٹ گیا
Shrek کی مثال بڑی کمال جوڑی نواز شریف سے آپ نے۔ بہت لطف آیا۔
ReplyDeletevery nice blog.......
ReplyDeleteyou have a very nice sense of humour..... Character of Mian Sahab is very funny.......
اولاً تو آپ اس خوب صوت تحریر پر داد کے مستحق ہیں اور ثانیاً آپ کی کمال حس مزاح کی داد دینا بھی واجب سمجھتا ہوں۔ خیر آپ نے کسر نفسی سے کام لیا ہے ورنہ میاں صاحب بذات خود اتنی ناپسندیدہ اور کریہہ شخصیت کے مالک ہیں کہ حیرانگی کی بات ہے کہ خود کو دیکھ کر شرمندہ نہیں ہوتے۔ اور جاہل پٹواریوں کا بیان بھی آپ گول کر گئے ورنہ ایسی گھٹیا سوچ کے مالک افراد پر لعن طعن جتنی کی جائے کم ہے۔ خیر آپ کی شگفتہ مزاجی کے قائل ہو گئے
ReplyDeleteاس پوسٹ کو پڑھ کے لال بیگ نے تو پٹیاں کرانی شروع کر دی ہوں گی اب تک
ReplyDeleteمیں ذرا جا کے چیک کروں اس کی کیا حالت ہے، تھوڑی تیمار داری بھی کر لوں گا اگر تو کہے تو :P
رومانس والے پیراگراف کو تھوڑا سا تڑکا لگ جاتا نا تو میرے جیسوں کو ”سٹوری“ کا مزہ بھی آ جاتا :D
بڑا ہی مزا آیا پڑھ کر۔ نواز شریف کی تاریخ سوائے اندھے بہرے درباریوں کے سب جانتے ہیں۔
ReplyDeleteلکھتے رہیں۔ آج کل ایسا مزاح کم ہی پڑھنے کو نصیب ہوتا ہے۔
چاچاری ساری رات ٹوائلٹ کے چکر لگائے گا۔ بہت ہنسی آئی پڑھ کر۔
Dear brother, this writing of yours is very humorous. keep it up.
ReplyDeleteچور چور چور میرے بلاگ کی کاپی کرتا ہے۔ اوقات تیری دو ٹکے کی نہیں اور ہم جیسوں سے پنگے لیتا ہے۔ ہٹا اس کو اپنے بلاگ سے ورنہ تو جہاں ہے وہیں سے غائب کروا دوں گا۔
ReplyDeleteعِمران بھائی مزا آگیا۔ آج سے بیس سال پہلے ایک صاحب کا آرٹیکل پڑہا تھا جو کہ بدقِسمتی سے میاں صاحب کے انگریزی کے ٹیوٹر رہ چُکے تھے ۔ اب اُنہوں نے کیا لِکھا ہو گا وہ سب تو خیر اب قوم کے سامنے ہی ہے اور جِسے اِس پوسٹ میں آپ نے سمو ڈالا ہے ۔ بہت اعلی
ReplyDeleteھاھاھاھاھاھا۔۔۔۔۔
ReplyDeleteحضرت جی۔ یہ آپ نے خود لکھا ھے؟۔۔۔کمال کر دیا۔
نہیں کاشف بھائی۔۔۔ فیلپینو سیکریٹری سے لکھوائی ہے۔۔۔
ReplyDeleteMain Jee App Ka Khana .hahahahahah
ReplyDeleteاگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔