لبیک - قسط اول - پہلا تجربہ

یکم ستمبر سوا دس بجے فلائیٹ ا لدمام ائیر پورٹ پر اتری۔۔۔ اور میں جہاز سے اتر کر امیگریشن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ مختلف کاونٹروں پر لمبی قطار یں پہلے ہی منتظر تھیں۔۔۔ میں بھی ایک قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ مجھے لینے آئے عظیم، توصیف اور خرم باہر میرے منتظر تھے۔۔۔ میں نے فون پر انہیں اپنے پہنچنے کی اطلاع دی اور کہا کہ انشاءاللہ آدھے گھنٹے میں سارے مراحل سے گزر کر میں ان سے ملوں گا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اگلے کچھ گھنٹے میرے لیے نہایت اذیت ناک ہوں گے۔۔۔




تقریباً آدھا گھنٹہ بیت گیا اور جس قطار میں میں کھڑا تھا وہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔ کل ملا کر صرف تین کاونٹر پر سعودی حکام بیٹھے تھے۔۔۔ اور تینوں قطاریں بس آہستہ آہستہ رینگ رہی تھیں۔۔۔ میں نے جھنجلاہٹ میں تھوڑا آگے بڑھ کر دیکھا کہ مسئلہ کیا ہے، لوگ نکل کیوں نہیں رہے۔۔۔ دیکھا، کہ تینوں حکام آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور کسی کے سامنے کوئی مسافر نہیں کھڑا۔۔۔ جو آگے بڑھتا، اسے اشارے سے اپنی جگہ کھڑا رہنے کا کہتے اور پھر کبھی موبائل سے کھیلنے لگتے اور کبھی اٹھ کر دوسرے کے پاس جا کر کھڑے ہو جاتے۔۔۔ میرا دماغ گھوم گیا کہ یہ کر کیا رہے ہیں۔۔۔ میرا دل چاہا کہ جا کر کسی سعودی سے بات کروں کہ بھائی کچھ کام کر اور ہمیں فارغ کر۔۔۔ لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔۔ اسی جھنجلاہٹ میں واپس اپنی جگہ آ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔

کچھ دیر بعدشاید انہیں خیال آیا کہ اب کچھ کام کرنا چاہیے۔۔۔ تو ان میں سے دو نے کام شروع کیا اور تیسرا اسی طرح اونچی اونچی آواز میں دوسروں کو چھیڑنے میں مصروف ہو گیا۔۔۔ تقریباً سوا گھنٹے کی انتظار کے بعد میرا نمبر بھی آ ہی گیا۔۔۔ امیگریشن کے افسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور پھر میری طرف واپس پھینک دیا۔۔۔ اور "نیو ویزا "کہہ کر ہاتھ کے اشارے سے آخری کاونٹر پر جانے کا حکم دے دیا۔۔۔ میں نے حیرت اور غصے سے اسے دیکھااور کہا کہ میں پچھلے سوا گھنٹے سے اپنی باری کا انتطار کر رہا ہوں، اس لیے براہ مہربانی یہیں پر پاسپورٹ پر سٹیمپ لگا دے۔۔۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ حیرت اور غصے سے دھاڑا اور "نیو ویزا" کہہ کر پھر آخری کاونٹر کی طرف اشارہ کر دیا ۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ بھائی صاحب کو میری بات سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ اور اس کا وقت مزید کھوٹا کرنے سے بہتر ہے کہ میں شرافت سے آخری کاونٹر پر جا کر کھڑا ہو جاوں۔۔۔

آخری کاونٹر بدقسمتی سے اسی افسر کا تھا جو باقی دو افسران کو جگتیں مار رہا تھا اور اس کا کام کرنے بلکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔ میں ایک پاکستانی بھائی سے بات چیت کے بہانے اس کے آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ وہ بھی کوئی نہایت ہی شریف آدمی تھا جس نے خاموشی سے مجھے اپنے سے پہلے کھڑا ہونے کی اجازت دے دی۔۔۔ یہ قطار ان حضرات پر مشتمل تھی جو نئے ویزٹ یا ایمپلائمنٹ ویزے پر سعودیہ ظہور پزیر ہوئے تھے۔۔۔

بارہ بجتے ہی تینوں کاونٹرز سے حکام اٹھے اور کہیں غائب ہو گئے۔۔۔ اب اگلا آدھا گھنٹہ ہمیں پھر سے انتظار کرنا تھا کہ کوئی آئے اور ہمیں انتظار کی اس کوفت سے آزاد کرے۔۔۔ آخر کار دو اہلکار ہنستے کھیلتے آئے اور دو کانٹرز پر بیٹھ کر خوش گپیاں کرنے لگے۔۔۔ ہمارا خالی کاونٹر اب بھی ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔۔۔ انتظار اور یہ گھڑیاں اتنی تکلیف دہ تھیں کہ بتانا مشکل ہے۔۔۔

ایک بجے ایک چھوٹے سے قد کا سعودی اہلکار ہمارے سامنے سے منہ میں سگریٹ سلگائے گزرا اور ہم پر نہایت طنزیہ نگاہیں ڈال کر بولا "ویٹ"۔۔۔

ہمیں تھوڑی سے ڈھارس بندھی کہ چلو اب آ ہی گیا ہے بندہ ۔۔۔ لیکن یہ بندہ بھی کہیں دوسرے کمرے میں جا کر گم ہو گیا۔۔۔ ڈیڑھ بجے وہی حضرت کہیں سے نمودار ہوئے اور کاونٹر پر آ کر بیٹھ گئے۔۔۔ اور اپنے موبائل سے کھیلنے لگے۔۔۔ آخر کار ان کے ذاتی کام ختم ہوئے اور انہیں اپنا آفیشل کام کرنے کا خیال آیا۔۔۔ اور انہوں نے بندے بلانے شروع کر دیے۔۔۔ دو بجے کے قریب میرا نمبر آیا۔۔۔ اس نے بغور میری شکل دیکھی اور پھر ویزے پر چھپی میری تصویر دیکھی۔۔۔ اور ہاتھوں کے اشارے سے فنگر سکینر پر ہاتھ رکھنے کو کہا۔۔۔ اور پاسپورٹ پر "اینٹری" کی سٹیمپ لگا دی۔۔۔

امیگریشن سے باہر نکل کر اپنا سامان سنبھالتے ہوئے میرے منہ سے نکلا۔۔۔۔

"Welcome to Kingdom of Saudi Arabia…

جاری ہے

10 Comments

  1. غلام مرتضیٰ علیSeptember 22, 2011 at 5:10 AM

    دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب وجوار میں داخلہ مبارک!!!
    یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے
    ۔۔۔۔ مزید یہ کہ
    این سعادت بزورِ بازو نیست۔۔۔۔ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
    گزری چودہ صدیوں میں نجانے کتنے لاکھوں کروڑوں نہایت متقی، پرہیز گار اور برگزیدہ لوگ دیارِ حبیب کی ایک جھلک دیکھ لینے، اُس کے قرب و جوار میں ہی پہنچ جانے کی حسرت لیے اس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ اب بھی نہ معلوم کتنے بے شمار اللہ والے ایک بلاوے کے منتظر ہیں۔ اُن کے پاس کچھ جمع پونجی بھی نہیں۔ جبکہ آپ کو ماشا ء اللہ سوادِ حرمین میں جگہ مل گئی ہے۔ میری ناچیز معلومات کے مطابق یہاں سےبس پر حرمین کا راوءنڈ ٹرپ صرف اسی یا نوے ریال کا ہے۔
    باقی دربانوں کا معاملہ اور رویہ تقریبا ہر جگہ ملتا جلتا ہوتا ہے۔ اسے بارِ خاطر نہ بننے دیں۔
    ایک بار پھر مبروک، الف الف مبروک
    غلام مرتضیٰ علی

    ReplyDelete
  2. سلام بھائی بتایا بھی نہیں کلے کلے چلے گے باقی ہم مسلمانوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے آج ہم مسملمان ایسے حالات سے گزر رہے ہیں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اور جو واقعہ آپ نے بیان کی ان کی قسمت اچھی کے وہ سودیہ میں ہیں کسی یورپین کانٹری میں نہیں

    ReplyDelete
  3. بہُت بہُت مُبارک ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ سعادت بخشی ہمیں بھی اپنی دُعاؤں میں ضرُور یاد رکھیں،،،

    ReplyDelete
  4. ضیاء الحسن خانSeptember 22, 2011 at 5:37 PM

    چل خیر ہے یار ۔۔۔۔۔۔ اسطرح تو سعودیہ میں سب کے ہی ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر ویلکم تو کنگڈم آف کھجور :ڈڈ

    ReplyDelete
  5. Shabih Fatima PakistaniSeptember 22, 2011 at 9:33 PM

    Ya Allah Taubah mujhay tau parh ke he koft horahi hai :S

    ReplyDelete
  6. میرا تبصرہ کیا سپیم کی نزر ہو گیا؟؟؟؟
    بہر حال میری طرف سے ایک بار پِھر بہُت بہُت مُبارکباد قبُول ہو ہمیں بھی اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں اللہ تعالیٰ آپ کی عِبادتوں کو مقبُو لیت عطا کرے،،آمین

    ReplyDelete
  7. یہ انتظام پہلے کچھ اچھا تھا لیکن اب ان سعودیوں کی طبیعتیں بھی بدل رہی ہیں،اور انکو بھی کام چوری اور رشوت کے چسکے نے آلیا ہے۔

    تکلیف پر مسلمان کو اجر کا ملنا تو الگ بات لیکن انکے اس روئے پر انسان کو افسوس ہوتا ہے۔

    ReplyDelete
  8. آجکل جدہ اور ریاض ائرپورٹ پر صورتحال خاصی بہتر ہو چکی ہے تاہم تبدیلی کے یہ اثرات شاید دمام ائرپورٹ پر نہیں پہنچے۔ چند سال پہلے تک جدہ ائرپورٹ پر بھی جہاز کے دروازے کھلتے ہی جو دوڑیں لگتی تھیں کہ اللہ کی پناہ۔ یو ٹیوب پر دیکھیئے کہ گورے لائن میں پہلے جگہ پانے کیلئے کیسے بھاگتے تھے۔
    حجاج کرام تو ان تکلیفوں کو ثواب سمجھ کر برداشت کر جاتے ہیں مگر دوسروں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہمارے ایک ایکسپورٹر کو ایک بار تین گھنٹے لائن میں لگنا پڑا اور یہ دورہ اُسکا آخری دورہ ثابت ہوا تھا۔
    ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا جب باہر نکلتے نکلتے چار چار گھنٹے لگ جاتے تھے مگر اب گھنٹا بھر میں یہ سب مراحل طے پا جاتے ہیں۔ الحمد للہ۔

    ReplyDelete
  9. ہماری پنجابی میں کہتے ہیں
    لتراں دی کمی ایہہ

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔