میں بڑا ہی جاہل بندہ ہوں جی۔۔۔ مجھے نا تو سائنس کا علم ہے اور نا ہی فلسفے سے کوئی دلچسپی۔۔۔ مجھے نا تو مشکل باتیں سمجھ آتی ہیں۔۔۔ اور نا ہی میں زومعنی گفتگو کر سکتا ہوں۔۔۔
میری جہالت کی انتہا دیکھیے کہ مذہب میں فلسفے کی شمولیت کا قائل نہیں ہوں۔۔۔ اندھوں کی طرح مذہب کو اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے۔۔۔ مذہب بھی کونسا۔۔۔ ساڑھے چودہ سو سال پرانا۔۔۔ وہ مذہب جسے دنیا آج دقیانوس کہلانے پر تلی ہوئی ہے۔۔۔ لیکن ناجانے کیوں۔۔۔ مجھے میرا مذہب اتنا اچھا کیوں لگتا ہے۔۔۔
میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں۔۔۔ لیکن مجھے خدا کی خدائی میں کوئی شک نہیں نظر آتا۔۔۔ مجھے بس یہ سمجھ آتی ہے کہ ہر سبب کے پیچھے مسبب الاسباب کا ہونا لازمی ہے۔۔۔ ہر فکر کے پیچھے ایک مفکر کا ہونا واجب ہے۔۔۔ جب میں "ایاک نعبد و ایاک نستعین" پڑھتا ہوں تو پھر مجھے کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں رہتی۔۔۔ بس آنکھیں بند کیے ایک خدا کے وجود کا یقین کر لیتا ہوں۔۔۔ وہ خدا جس نے کائنات کی تخلیق کی، آسمان بنائے اور زمین بنائی۔۔۔ ہمیں اشرف المخلوقات بنایا۔۔۔ اور ہمیں وہ سب کچھ دیا جس کے بغیر زندگی نا ممکن لگتی ہے۔۔۔ میری ناقص سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ کیوں کچھ فلسفی اس کے وجود کے دلائل ڈھونڈتے ہیں۔۔۔ کچھ نا ہوتا تو بھی میرا خدا ہوتا۔۔۔ اور کچھ بھی نا رہے گا تو بھی میرا اللہ ہو گا۔۔۔
مجھ میں اتنی سمجھ بھی نہیں کہ انبیاء کے تقدس اور وجود پر نظر ثانی کر سکوں۔۔۔ مجھے انبیاء ہر غلطی سے مبرا نظر آتے ہیں۔۔۔ مجھ جیسے جاہل کا ایمان ہے کہ ہر نبی اللہ کی زبان بولتے تھے۔۔۔ ہر رسول اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے۔۔۔ اور اللہ کی زبان اور پیغام کبھی غلطی نہیں کر سکتے۔۔۔ انبیاء تو معصوم تھے۔۔۔ انبیاء کو جو کام اللہ نے دے کر بھیجا۔۔۔ سب نے اپنا اپنا کام کیا اور واپس اپنے محبوب کے پاس لوٹ گئے۔۔۔
میرا جیسا گنوار یہ سوچتا ہے۔۔۔ کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں بتا دیا۔۔۔ چاہے ہم نے دیکھا یا نہیں دیکھا۔۔۔ اس پر ایمان لانا فرض ہے۔۔۔ چاہے وہ امام مہدی ہوں، دجال ہو، عیسی علیہ السلام کا ظہور ہو یا یا جوج ماجوج ہوں۔۔۔ مجھے یقین ہے۔۔۔ کہ وہ آئیں گے۔۔۔ ویسے ہی جیسے میرا اس بات پر یقین ہے کہ اللہ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا کی اصلاح کے لیے مامور کیے۔۔۔ میں ان سے بھی نہیں ملا۔۔۔ لیکن ان کا وجود تھا۔۔۔
مجھے قرآن سے عشق ہے۔۔۔ کہ مجھے قرآن کی بتائی ہوئی ہر تعلیم سمجھ آتی ہے۔۔۔ مجھے کوئی اور کتاب اچھی نہیں لگتی کہ ہر دوسری کتاب کا اپنا علیحدہ موقف ہے۔۔۔ جب کہ قرآن میرا انسائیکلوپیڈیا ہے۔۔۔ جب بھی کوئی مشکل ہوئی۔۔۔ قرآن کھولا اور اس میں سے ہر مشکل کا حل ڈھونڈ لیا۔۔۔ میرے جیسے گنوار بندے کے لیے اللہ نے کیا آسان حل دے دیا۔۔۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا اندھا یقین ہے۔۔۔ کہ ہر وہ لفظ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے نکلا۔۔۔ وہ میرے اللہ کا تھا۔۔۔ زندگی بہترین طریقے سے گزارنے کے جو اصول مجھے حدیث سے ملے۔۔۔ وہ مجھے سائنس نہیں دے سکا۔۔۔ میرے کند دماغ کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ ہزار کوششوں کے باوجود حدیث سے منکر حضرات، اب تک اپنے مقاصد میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے۔۔۔ فلسفہ اور سائنس کے کلیے استعمال کرتے کرتے وہ اتنے پرسکون کیوں نہیں، جتنا میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کو پورا کر کے ہوتا ہوں۔۔۔ کیا سنت اور حدیث رسول پر عمل کرنا زیادہ آسان ہے۔۔۔ جی۔۔۔ آسان تو ہوگا۔۔۔ ورنہ میرے جیسے کاہل اور جاہل انسان اسے کبھی نا اپناتے۔۔۔
میری جاہلانہ سمجھ بھی یہاں آ کر رک جاتی ہے ۔۔ کہ میں وہ سارے کام کرنے کی کیوں کوشش کرتا ہوں جو مجھے پر میرے اللہ نے فرض کیے ہیں۔۔۔ یا جن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے۔۔۔ اگر خدا نا ہوتا تو نماز کس لیے پڑھتا، روزہ کس لیے رکھتا، زکوٰۃ کس کے حکم سے دیتا۔۔۔ نیکی کیوں کرتا۔۔۔ کماتا کس کے لیے۔۔۔؟ یہ کام ہمیں کس نے کرنے کے لیے کہا۔۔۔؟ کیوں کہا۔۔۔؟ بس کہہ دیا اور ہم نے مان لیا۔۔۔ اب کرنا تو ہے۔۔۔ فرض جو ہے۔۔۔
جب یہ سب سوچتا ہوں تو مجھے خود کے جاہل، ان پڑھ اور گنوار ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔۔۔ کہ آنکھ بند کیے میں جس نبی کی پیروی کر رہا ہوں، جس دین کو اپنا کے بیٹھا ہوں۔۔۔ اور جس خدا کی عبادت کرتا ہوں۔۔۔ وہ ہی حقیقت ہیں۔۔۔ اور لاکھ فلسفہ دوڑا لیں۔۔۔ حقیقت نہیں بدلے گی۔۔۔ لاکھ لاجیکس پیدا کر لیں۔۔۔ وجود الہیٰ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔۔۔۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی سائنس اور فلسفے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔۔۔
22 Comments
پاگل ہونا جاہل ہونے سے کہیں زیادہ بھاری ہوتا ہے ...پاگل پن میں آدمی ردی اور قیمتی الہامی تحریر میں فرق نہیں کرپاتا اور ہر ردی کاغذ کو اٹھا کر اس طرح سے سینے سے لگا لیتا ہے جیسے اس ردی کاغذ میں اسکی نجات ہو . پھر اسے ایک نیا کاغذ ملتا ہے تو اسے بھی اٹھا کر سینے سے لگا لیتا ہے پھر ایک نیا ردی کاغذ ملتا ہے تو وہ اسے بھی سینے سے لگا لیتا ہے جب بہت ساری ردی جمع ہوجاتی ہے تو بڑے فخر سے اسے ایک کتاب کی شکل دیتا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے یہ سوچے بغیر کہ انواع اور تضادات سے بھری اس ردی میں ربط کیسے قائم کیا جائے. جس ردی میں کوئی ربط نا ہو اور جس کا ایک صفحہ خود دوسرے صفحے کو رد کر رہا ہو اس پر فخر کرنے والے کو علم والا نہیں کہ سکتے....یہ نرا پاگل پن ہے..
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی آپ کی طرح جاہل بنا دے آمین
ReplyDeleteAllah pak mjhe bhi aisa jahil bna de.... aise jahalat pe mjhe fakhar hai..
ReplyDeleteAllah ki dee hoi aaqal ko istimal karna zarori hay(di hi isliye hay k istimal ki jay) laykin jab baat Allah aur us k rasool ki ho tu sub aik taraf rakh kar srif Dil ki baat suni jay.
ReplyDeleteYa jhalat nahi hay.
Agar aik bacha apni zindigi k pahlay sabaq pa
aitriaz kary aur kahay k "mughay Alif Q parhatay ho sub say pahlay "B" q nahi ya Bay q nahi ya Jeem q nahi tu woh sari zindigi kuch nahi seekah sakta" Jab yahi bacha apni zindigi ma kuch par jata hay kuch kar jay tu phir usko eahsah hota hay k han ma ghalat tha sub say pahlay "Alif" hi parna sahi hay.
Shukria.
بہت خوب عمران بھائی، پاگلوں کو عالم کہنا درست نہیں۔
ReplyDeleteویسے میں بھی ایک ایسا ہی جاہل ہوں۔۔۔۔
تم سب نے صحیح لکھا
ReplyDeleteتم سارے ہو ہی جاہل
اللہ تمام جاہلوں کی جانب سے آپکو جزائے خیر عطا فرمائیں
ReplyDeleteاگر بے دلیل اللہ کے وجود کو ماننا اور انبیاء کے تقدس کو سرمہ بصیرت بنائے رکھنا جہالت ہے میں بھی جاہل ہوں بلکہ اجہل ہوں،ائے اللہ آپ گواہ رہئے کہ ہم آپ کے وجود کو بغیر دلیل کے اپنے وجود سے بھی بڑھ کر ماننے والے ہیں اور اسی جہالت پر اپنی زندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں
بہت خوب ۔
ReplyDeleteپاگل اور جاہل۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون بہتر ہے۔۔۔میرے خیال میں جاہل ہی بہتر ہے۔
لیکن آپ تو ماشاءاللہ جاہل ہوہی نہیں سکتے۔۔الحمد اللہ ٓپ عقلمند بھی ہو۔
عمران اقبال بھائی۔ حق و سچ کا اعتراف کر لینا بذات خود ایک فضیلت بھرا کام ہوتا ہے۔ اگر اوپر لکھی گئی صفات جاہلوں کی ہیں تو میرا نام بھی ان جاہلوں میں لکھ لو اور اس پر گواہ بھی رہنا۔ ہم نے آمنا و صدقنا کہا اور اسکے بعد نہ کوئی قیل و قال کی اور نا ہی کسی لیت و لعل سے کام لیا۔ ہم نے تو نا صرف سرکار کی کہی ہوئی ہر بات کو ایمان کا درجہ دیا بلکہ اگر یہ بھی پتہ چل گیا کہ سرکار کو فلاں چیز پسند تھی تو اسے بھی عقیدت سے اٹھا کر آنکھوں سے لگایا چوما اور سینے سے لگا کر ٹھنڈک پائی۔ کیونکہ ہم نے سرکار کے توسط سے ملے کلام ربی میں پڑھا ہے کہ باپ نے بیٹے سے ذبح ہو جانے کو کہا تو بیٹے نے (یا ابت افعل ما تؤمر) اے ابا کر گزر جسکا آپ کو حکم ملا ہے۔ ایمان کو تازہ کرنے پر شکریہ قبول کیجیئے۔
ReplyDeleteرضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیاً رسولا۔
جزاک اللہ خیر۔
ReplyDeleteاللہ مزید ترقی دے۔
کاش کہ اللہ سب کو سمجھا دے ایک سیدھی سی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ میں کچھ نہیں اور میرا کچھ نہیں اللہ سب کچھ اور اللہ ہی کا سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت اچھے عمران
ReplyDeleteتیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
ReplyDeleteعالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اللہ کریم ایسا جہل ہم سب کو عطا فرمائے اور علمِ ضارّ سے محفوظ رکھے
جزاک اللہ خیر
SUBHANALLAH
ReplyDeletejahloon ka tola . akatha ho gya hy . idher . ALLAH karey main bhee jahil ho jaoon aisa hee
ReplyDeleteعمران ۔۔
ReplyDeleteچاہے لاجک کا رستہ ہو یا فلسفے کا یا سائنس سے ثابت کرنا ہو ، ۔
اگر طلب سچی ہو تو ہر راستہ ایک ہی منزل پر لے کر جاتا ہے
بہت خوب.
ReplyDeleteسب قارئین کے تبصروں، پسندیدگی اور دعاووں کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ اللہ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔
ReplyDeleteبہت اچھا لکھا ہے عمران ، ڈاکٹر جواد کا تبصرہ بہترین ہے ۔۔
ReplyDeleteجب میں "ایاک نعبد و ایاک نستعین" پڑھتا ہوں تو پھر مجھے کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں رہتی...
ReplyDeleteواللہ! آپ کی تحریر میں "جب میں "ایاک نعبد و ایاک نستعین" پڑھتا ہوں تو پھر مجھے کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں رہتی" یہ جملہ آپ کی اس تحریر کا مغز ہے۔
اے اللہ ۔ ہمارے دل کشادہ کر دے اور جو خصوصیات عمران بھائی نے گنوائی ہیں ان سے مالا مال کر دے۔
حجاب اور جاوید بھاءی۔۔۔ آپ کے تبصروں اور پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔
ReplyDeleteماشااللہ کیا خوبصورت خیالات ہیں۔۔۔اللہ سبہانہ و تعالیٰ آپکو ہمیشہ صحت اور ایمان کی دولت سے نوازے آمین
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت خوبصورت تحریر ہے
ReplyDeleteکاش اللہ مجھے بھی آپ جیسا جاہل بنا دے
اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔