بڑے بزرگوں نے بڑا سمجھایا۔۔۔ کہ جاہلوں کے منہ نا لگا کرو۔۔۔ ان سے نیکی کی کوئی امید نا رکھو۔۔۔ جاہل ہمیشہ اپنی بات کو ہی ٹھیک سمجھتا ہے۔۔۔ اس کے پاس لاجک والی بات تو ہوتی نہیں۔۔۔ بس جو محلے کی بڑی بی سے سن لیا، اسے ہی حرف آخر سمجھ لیتا ہے۔۔۔ خود کو درست ثابت کرنے کے لیے جاہل کا آخری حربہ چچ چچ چچ اورغوں غوں غاں غاں ہی رہ جاتا ہے۔۔۔
بڑے بزرگوں نے بڑا سمجھایا، بس ہمیں ہی طبع آزمائی کاشوق ہو گیا تھا۔۔۔ گرمی بڑھتی جارہی تھی تو ہم نے اس تالاب میں چھلانگ لگا دی جہاں بیشتر بارہ سنگھے غسل کیا کرتے ہیں۔۔۔ بارہ سنگھوں کو میری یہ حرکت نہایت ناگوار گزری اور کرنے لگے اپنے سینگھوں سے حملے۔۔۔ میں نے بڑا سمجھایا کہ کسی اور کے نچلے بھائی، تیرا کیا کام۔۔۔؟ تو اپنی صفائی کر اور مجھے زرا ٹھنڈ ماحول لینے دے۔۔۔ لیکن عجب دماغ پایا ہے بارہ سنگھے نے۔۔۔ کہنے لگا، اس تالاب کے جملہ حقوق "کسی" نے انہیں اور "ان" کے شاگرد خاص کو عطا فرمائے ہیں۔۔۔ اور "ان" کو یہ تالاب "ان" کے جی داروں کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔ حکم ملا کہ نکلوں، ورنہ "منافقت"، "جہالت" اور "چچ چچ چچ" کا لیبل لگوا کر دربدر کروا دیا جاوں گا۔۔۔
بڑے بزرگوں نے بڑا سمجھایا تھا کہ اس تالاب میں سارے ہی گندے ہیں، ادھر کا رخ نا ہی کروں لیکن تجربہ بھی کوئی شے ہوتی ہے۔۔۔ بس جی اب تجربہ ہو گیا کہ "ان" سے بچ کے ہی رہا جائے۔۔۔ اور "لاحول ولا قوة" کا مستقل ورد رکھا جائے۔۔۔ ورنہ کالا جادو صرف بنگالی بابوں کی ہی میراث نہیں۔۔۔ آجکل بنگالی بابوں کے شاگرد بھی اس ہنر میں طاق ہو گئے ہیں۔۔۔
20 Comments
چلو جی لوٹ ۔۔۔۔۔۔۔کے گھر کو آئے۔
ReplyDeleteہاہاہاہا
یاسر بھائی۔۔۔ اب جملہ پورا لکھ ہی دنیا تھا۔۔۔ بدھو کیوں کاٹ گئے۔۔۔؟
ReplyDeleteبڑی جلدی احساس ہو گیا غلطی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنتے آئے ہیں کہ چھتیس ھفتے تو لگتے ہی ہیں
ReplyDeleteضیا بھائی۔۔۔ آپکے کتنے ہفتے لگے تھے۔۔۔؟
ReplyDelete[...] غلطی ہو گئی… [...]
ReplyDeleteجہاں علم کی منطق ختم ہوتی ہے وہاں میں کا راگ شروع ہوتا ہے۔ شیاطان اسلئیے سیانا نہیں کہ اسکے پاس علم نہیں بلکہ اسلئیے سیانا ہے کہ اسکا نجس وجود حضرت انسان سے بھی قبل کا ہے اور اسکی سیانپ یعنی ورغلانے کی طاقت اور ہنر اسکے علم کے ساتھ ساتھ اسکی لمبی عمر کے تجربے کی وجہ سے ہے ۔ مگر اتنا علم ، تجربہ اور لمبی عمر ہونے کے باوجود محض اسکی ضد ور تکبر نے اسے راندہ درگاہ کیا۔
ReplyDeleteعلم وہ ہوتا ہے جس سے دوسروں کو کچھ فائدہ نہ ملے تو کم از کم کسی کا دل نہ دکھے۔ مگر جہان بارہ سنگھا میں تو ایک مخصوص سائکی ہے ۔ جہاں دوسروں کے عقائد ، رہن سہن۔ و عادات و خصا ئل کو بنیاد بنا کر لطف و انسباط کے خط اٹھائے جاتے ہیں اور کیف کی سسکاریاں بھری جاتی ہیں۔
بہر حال واپسی مبارک ہو۔
عمران اگر آپ کو لگا کہ غلطی ہو ہی گئی تھی تو کم از کم پوسٹ نہیں کرنا چاہیئے تھی :roll:
ReplyDeleteحجاب۔۔۔ غلطی تحریر یا پوسٹ لکھ کر نہیں کی۔۔۔ بلکہ آنٹی کے محلے ميں ان سے اور ان کے بارہ سنگھوں سے بحث کر کے کی ہے۔۔۔ غلطی یہ بھی ہوئی کہ ان کے ساتھ اپنا وقت ضائع کیا۔۔۔ غلطی جاہل لوگوں سے عقل کی امید رکھ کے کی ہے۔۔۔
ReplyDeleteافسوس آپ مجھے اور میری پوسٹ کو غلط سمجھی۔۔۔
مجھے نا تو کوئی دکھ ہے اور نا پچھتاوا کہ میں نے "محلے کی آنٹی" لکھی۔۔۔۔ افسوس یھ ہے کہ "عورت اور بلاگنگ" پر اپنا قیمتی وقت اور الفاظ ضائع کر دیے۔۔۔
چلیں جی کچھ نا کچھ حاصل ہی ہوا نا کچھ سیکھنے کو ہی ملا ہے نا
ReplyDeleteعمران میں نے آپ کو غلط نہیں سمجھا نہ ہی محلّے کی آنٹی والی پوسٹ کی بات کی ہے ۔۔ میں نے یہ لکھا کہ اگر آپ کو لگا تھا کہ آپ نے غلطی کی ہے تو اس غلطی کے ذکر کے لیئے یہ غلطی والی پوسٹ منظر پر نہیں آنی چاہیئے تھی ۔۔
ReplyDeleteحجاب۔۔۔ خالصتا طنز کیا ہے اپنی تحریر میں آنٹی اور بارہ سنگھوں کی جہالت پر۔۔۔
ReplyDeleteارے عمران ۔۔
ReplyDeleteمیں تو اور طرح کی پوسٹیں ڈھونڈنے آتا ہوں اس بلاگ پر ۔۔
:(
اامتیاز بھاءی۔۔۔ معذرت کہ آپ کو میری یہ پوسٹ پسند نہیں آءی۔۔۔۔ اگر مزاح آپ کو پسند نہیں آیا تو مجھے ًآپً سے شرمندگی ہے۔۔۔
ReplyDeleteانشاءاللھ تعالیٰ آپ کو اچھی تحاریر ہی ملیں گی اس بلاگ پر۔۔۔
کس نے کہا کہ مجھے پوسٹ پسند نہیں آئی
ReplyDeleteیہ اچھی تحریر ہے ۔۔
اب آپ میرا دماغ پڑھ کر اسکے مطابق پوسٹ اپنے بلاگ پر تو لگانے سے رہے
چلو بھئی کوئی بات نہیں۔ دل چھوٹا نہیں کرتے۔ ایک ہی تو جنگل ہے جہاں باراسنگھے آزادی کے ساتھ پھرتے ہیں اور چچ چچ چچ کے ساتھ ساتھ بھو بھو بھی کرتے ہیں۔ اب آپ بھو بھو پر حیران نہ ہوں، یہ خاص قسم کے باراسنگھے ہیں۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteواہ جی واہ سب کے رپلائے کا جواب دیا ہے میرے رپلائے کا جواب ہی نہیں دیا ہم کوئی سوتیلے ہیں کیا : D
ReplyDeleteخرم بھائی۔۔۔ معاف کر دیں۔۔۔ جان بوجھ کر نظر انداز نہیں کیا تھا۔۔۔ بس غلطی ہو گئی۔۔۔ ویسے شکریھ رپلانے کا۔۔۔ : D
ReplyDeleteوقار بھائی۔۔۔ دل چھوٹا نہیں۔۔۔ بلکہ بڑا ہو گیا ہے۔۔۔
ReplyDeleteبارہ سنگھوں کی کس کو پرواہ ہے۔۔۔ ان کا تو کام ہی بھو بھو بھو کرنا ہے۔۔۔
اب آئے ہو نا لائن پر گڈ
ReplyDeleteمیں بھی مذاق ہی کر رہا تھا جناب
font> اس تالاب کی طرح پاکستانی سیاست ہے کہ جو بھی اسکے اندر جاتا ہے تو گندا ہو کر ہی نکل سکتا ہے ورنہ اگر صاف نکلنے کی کوشش کرے گا تو مارا جائے گا۔
ReplyDeleteاگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔