نفسِ مطمئنہ کی تلاش

دوستو۔۔۔ یقین جانیے کہ دل سے جانتا ہوں اور مانتا ہوں کہ روئے زمین پر مجھ سے زیادہ گناہ گار اور کمینہ انسان کوئی  ہے اور نا ہی کوئی  ہوگا۔۔۔  اکثر حضرات سے اپنے اس ایمان کا ذکر کیا تو ان کی رائے یہ تھی کہ اپنے آپ کو اتنا گرا ہوا محسوس نا کروں۔۔۔ میں اتنا برا نہیں ، جیسا میں خود کو سمجھتا ہوں۔۔۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ خود احتسابی بھی کوئی شے ہوتی ہے۔۔۔ خود کو کسی بھی طرح اچھا، بہتر، نیک محسوس کروا لیا تو بہتری کی گنجائش شاید ختم ہو جائے۔۔۔  نا صرف یہ کہ گنجائش نا رہی، بلکہ ریا کاری اور تکبر جیسے اخلاقی گناہوں میں مبتلا ہونے میں شاید دیر نا لگے۔۔۔


عمر کے اس مقام پر  اب مجھے دیگر گناہوں سے شاید اتنا خوف محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ جتنا نیکی اور اچھائی  کے نام پر اپنے نفس کو  پھلتا پھولتا محسوس کرتے ہوتا ہے۔۔۔ اسی خوف نے مجھے خود کی نظر میں اچھا یا بہتر ہونے سے روک رکھا ہے۔۔۔ اسی خوف نے شاید مجھے اپنی اصل اوقات پر ٹکائے رکھا ہے۔۔۔ اسی خوف نے مجھے یہ باور کروایا ہے کہ سکون تو مجھے شاید آخری سانس کے بعد ملے گا لیکن اس کی تلاش کرنا بھی بے وقوفی ہے۔۔۔


دوستو، یہ نفس بھی انسان کا بڑا دوست ہوتا ہے۔۔۔ اور شاید سب سے بڑا دشمن بھی۔۔۔   کسی کے قابو میں شاید ہی آتا ہوگا۔۔۔ جس کے قابو آ گیا ، اس کی دنیا بھی بن گئی اور آخرت بھی۔۔۔ اور جس پر حاوی ہو گیا۔۔۔ نا  دنیا آباد۔۔۔ اور۔۔۔ نا آخرت میں کوئی حال۔۔۔ واللہ۔۔۔ یہ نفس بڑی کمینی شے ہے۔۔۔  بڑی ہی کمینی شے ہے۔۔۔ انسان کی کامیابی اور ناکامی نفس کے ہاتھوں ہی رکھی گئی ہے ۔۔۔ اس سے لڑنا بھی مشکل اور  اس سے اپنا پہلو بچانا۔۔۔ سب سے مشکل۔۔۔


میں اپنا نفس مارنے کی کوشش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔۔۔ اور کسی طرح بھی کامیابی نظر نہیں آ رہی۔۔۔ نفس ِ مطمئنہ کی تلاش جاری ہے۔۔۔ اور شاید جاری رہے گی۔۔۔ نفسِ مطمئنہ کا حصول شاید اتنا مشکل نہیں۔۔۔ جتنا، اس کی خواہش کرتے رہنا تکلیف دہ ہے۔۔۔


کل استاد ِ محترم نے یہ کلیہ بھی حل کردیا۔۔۔ فرماتے ہیں۔۔۔ "خود سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو دوسروں کو سکون دینا شروع کر دو۔۔۔"


مزید فرماتے ہیں۔۔۔  " ایک انسان کے لیے مشکل ترین کام اپنے دشمن کو  برداشت کرنا ہے۔۔۔ سکون چاہتے ہو، تو اپنے اس دشمن کے حق میں اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا کرنا شروع کر دو۔۔۔ نا صرف سکون مل جائے بلکہ تمہاری اپنی دعاووں کو بھی قبولیت بخشی جائے گی۔۔۔"


دوستو، استادِ محترم نے حل تو بتا دیا ہے۔۔۔ اب یہ تو خود پر منحصر  ہے کہ کب تک اور کتنی کوشش کرنی ہے۔۔۔  اور کیا اس حل میں کامیابی چھپی ہے۔۔۔ یا تلاش۔۔۔


7 Comments

  1. بس بھائی جس دن یہ کام ہو لئے بندے نے ولی بن جانا
    سٹیپ بائی سٹیپ پروسیجر پوچھ کے بتا استاد سے
    ایک دم اتنی لمی چھلانگ نی ماری جاتی میرے جیسوں سے

    ReplyDelete
  2. چودری جی۔ سکون کی تلاش ھے تو گورنمنٹ نوکری کر لو۔ کچھ عرصے بعد ھی سکون پر لعنت بھیجنے لگو گے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو فیملی کو مہینے کے لیے پاکستان بھیج دو۔ :)
    جوان آدمی کو سکون تلاشنے کی باتیں ذیب نہیں دیتیں ۔ کہ اس کے لیے سکون ریٹائرمنٹ یعنی موت ھے۔ چنانچہ اگر جوانمرگی کا ارادە نہیں تو لڑے جاوو جنگ آخری سانس تک۔
    بٹ ڈونٹ فاگیٹ ٹو اینجوائے۔

    ReplyDelete
  3. السلام وعلیکم عمران بھائی، میں نے محسوس کیا ہے کہ میری اور آپکی فریکوینسی کہیں نہ کہیں ملتی ضرور ہے، میں خود بھی اس ہی اذیت کا شکار ہوں، ہم سکون باہر ڈھونڈتے ہیں جبکہ یہ باہر نہیں ملنے والا اسے اپنے اندر ہی تلاشنا ہوگا، ایسی کیفیت کا شکار اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کو ڈکٹیٹ نہیں کر پاتے زندگی انہیں ڈکٹیٹ کرتی ہے، جس دن وہ اس پوزیشن میں آجائیں کے زندگی کو ڈکٹیٹ کر پائیں شائد اس ہی دن انہیں یہ سکون میسر آسکتا ہے۔

    ReplyDelete
  4. امیں نے نفس کو جہاں تک جانا لکھنے کی کوشش کی ، شاید اس کا کوئی ایک حرف آپ کی سوچ کو چھو جائے - شکر گزاری کا احساس پیدا ہو جائے تو پھر برداشت خود ہی اس کے پیچھے چلی آتی ہے اور خواہش کسی شے کی بھی نہ ہو تو اچھا ہے کہ ہم نہیں جانتے ہمارے حق میں کیا بہتر ہے-
    http://noureennoor.blogspot.com/2013/02/blog-post_6094.html

    ReplyDelete
  5. ہر شخص کا ایک شیطان ہوتا ہے جو اسے ورغلاتا اور برائیوں پر آمادہ کرتا ہے۔ مگر یہ شیطان بیچارہ اتنا بھی خطرناک نہیں ہوتا۔ اس سے بھی بڑی خطرناک چیز ہوتی ہے ایک۔ شیطان کا کونسا شیطان تھا جس نے اسے بہکا دیا تھا کہ حکم عدولی کر لے۔ جس چیز نے شیطان کو بھی بہکا دیا تھا اس کا نام ہی نفس ہے اور ہمارا نفس بھی ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔
    برائی پر ندامت اور تنہائی میں یاد اللہ اور خوف خدا اگر ایمان کی نشانی ہے تو گھر میں ہنسی خوشی رہنا اور محبت بھرا ماحول بھی اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت اور عنایت کی نشانی ہے۔
    ڈفر کی بات مانیئے اور سٹیپ بائی سٹیپ، ورنہ آپ کو کسی آستانے پر نا ڈھونڈھنا پڑ جائے۔

    ReplyDelete
  6. @ ڈفر۔۔۔ استاد کے مشوروں پر ہی عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اب تو۔۔۔ کامیابی کا لیکن کوئی امکان جلد نظر نہیں آ رہا۔۔۔ :)

    @ جوانی پٹا صاحب۔۔۔ آپ میری تحریر سمجھے ہی نہیں۔۔۔ اس لیے۔۔۔ جانے دیں۔۔۔

    @ فکر پاکستان۔۔۔ بھائی جان۔۔۔ فریکوینسی تو لازمی کہیں نا کہیں ملتی ہے۔۔۔

    @ نورین تبسم صاحبہ۔۔۔ آپ کے تبصرے کا بہت شکریہ۔۔۔ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی تحریر بہت عمدہ ہے۔۔۔

    @ سلیم بھائی۔۔۔ آپ نے بلکل درست فرمایا۔۔۔ اللہ خیر کرے۔۔۔ مجھے چوکھٹِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مجاور بننا تو منظور ہے، لیکن کسی دوسرے بابا کے آستانے میں میرا کیا کام۔۔۔!!!

    ReplyDelete
  7. پہلے ہمارے بزرگ دنیا و دین کی تربیت کے ساتھ باطن کی بھی تر بیت کرتے اور سب سے پہلے نفس کو قسم قسم سے زیر کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔بہت اچھا لکھا بھائی اللہ پاک ہمارے نفس کو اپنے کرم سے اطمنان عطا کرے۔۔آمین

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔