کراچی میں ایک رات

رات د و بجے اٹریم مال  سے "دا سکائی فال" کا شو دیکھ کر نکلے۔۔۔   بڑے گیٹ سے باہر نکلتے ہی جو پہلا منظر دیکھا۔۔۔   وہ ایک بڑی گاڑی کا تھا، جس کے عقب میں کوئی چھ سات بندوق بردار حضرات بیٹھے کسی کے منتظر تھے۔۔۔ گاڑی کے آگے پیچھے رینجرز کی ایک ایک گاڑی کھڑی تھی۔۔۔   میں اور کاشی ایک سائیڈ پر کھڑے ہو گئے۔۔۔ اور انتظار کرنے لگے کہ معاملہ دیکھیں۔۔۔  کچھ دیر بعد ایک حسین و جمیل جوڑا ہاتھ تھامے مال سے نمودار ہوا اور درمیان میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ ، ہارن بجاتے یہ جا اور وہ جا۔۔۔ ہم دونوں دوست ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے ۔۔۔ کاشی گویا ہوا کہ بھائی سیکورٹی صرف انہی کی ہے۔۔۔ ہو گا کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ  کی اولاد ۔۔۔


کاشی کا موڈ پوری رات مٹر گشتی کرنے کا تھا۔۔۔  اٹریم مال سے روانہ ہوا اور کلفٹن کا رخ کر لیا۔۔۔   ارادہ ساحلِ سمندر  کے سکون کو محسوس کرنے کا تھا۔۔۔ راستے میں "عبداللہ شاہ غازی  کا مزار" تھا...  وجہ عقیدت تھی، کاشف سے درخواست کی کہ بھائی چل اندر چل کر بابا جی کے لیے دعائےِ خیر کرتے چلیں۔۔۔ کاشی نے گاڑی ایک طرف روک لی۔۔۔ گاڑی سے اترتے ہی جو منظر کریہہ منظر دیکھا ، وہ برداشت نا ہوا۔۔۔  مزار کی چوکھٹ پر ہی کچھ چرسی بیٹھے نشے میں دھت ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیوں سے نواز رہے تھے۔۔۔ تھوڑا آگے، کچھ ملنگ (جن پر شاید پانی حرام ہے) بیٹھے منکوں کا ڈھیر لگائے بلند آواز میں کچھ شرکیہ کلام پڑھ رہے تھے۔۔۔  کلام کے الفاظ یاد نہیں، لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ انہوں نے بابا عبداللہ شاہ غازی کو اللہ تبارک تعالیٰ کا ہم پلہ ضرور بنا دیا تھا  (نعوذ باللہ) ۔ یہ سب دیکھ کر واپس گاڑی میں بیٹھا اور کاشی کو چلنے کا کہا۔۔۔ کاشی ہکا بکا تھا کہ اچانک مجھے کیا ہو گیا۔۔۔ لیکن میرا وہاں رکنے کا تھوڑا سا بھی موڈ نا رہا۔۔۔

ساحلِ سمندر پرسکون تھا۔۔۔۔  چاندنی رات اور ہر طرف خاموشی ایک ایسا منظر پیش کر رہی تھی جس کو محسوس کرنے کی خواہش مجھے ہمیشہ سے ہی تھی۔۔۔  پیزا ہٹ کے قریب کاشی نے گاڑی پارک کی۔۔۔ اور  باہر بنی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔۔۔ باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔۔۔ کاشی سے تقریبا پانچ سال بعد ملاقات ہوئی تھی، اس لیے باتیں کرتے کرتے وقت کا بھی کچھ اندازہ نہیں رہا۔۔۔


پیزا ہٹ کے قریب کچھ نوجوان  کھڑے تھے۔۔۔ جن کے پاس تین موٹر سائیکلیں  تھیں۔۔۔  تھوڑی دیر میں ایک موٹر سائیکل ان کی طرف آتی دکھائی دی۔۔۔ جس پر تین پولیس والے سوار تھے۔۔۔ وہ ان لڑکوں کے پاس پہنچے اور ان میں کچھ تکرار ہونے لگی۔۔۔ اب کاشی مجھے لائیو کمنٹری سنانے لگا۔۔۔


"اب پولیس والے لڑکوں سے پیسے مانگ رہے ہیں۔۔۔   لڑکے تھوڑے بہت پیسے دے کر انہیں بھگانے کی کوشش کریں گے۔۔۔ لیکن پولیس والے نہیں مانیں گے"


میری نظریں اس منظر پر اٹکی ہوئی تھی۔۔۔  ان کی ہلکی پھلکی آوازیں ہم تک بھی پہنچ رہی تھیں لیکن سمجھنے کے لیے نا کافی تھیں۔۔۔


"اب ایک پولیس والا ان لڑکوں کی ایک موٹر سائیکل پر بیٹھ جائے گا اور اسے تھانے لے جانے کی دھمکی دے گا۔۔۔"


میں نے دیکھا کہ ایک پولیس والا  واقعی لڑکوں کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا اور آگے ایک دوسرا لڑکا بیٹھ گیا۔۔۔ اسی طرح دوسری موٹر سائیکل پر بھی ایک پولیس والا اور ایک لڑکا بیٹھ گیا۔۔۔ چار موٹر سائیکلوں کا کارواں روانہ ہوا اور ہمارے سامنے سے گزر گیا۔۔۔


"اب یہ سب تھوڑی دور جا کر رک جائیں گے اور پولیس والے ان لڑکوں کو تھوڑا اور ڈسکاونٹ دیں گے۔۔۔ لیکن پیسے لیے بغیر جانے نہیں دیں گے"


ہمارے سامنے سے گزر کر تین چار سو میٹر کے فاصلے پر سب موٹر سائیکل والے پھر رک گئے اور پھر ان میں بحث ومباحثہ شروع ہو گیا۔۔۔  میں نے دیکھا کہ لڑکوں نے کچھ پیسے ان پولیس والوں کو دئیے ہیں لیکن پولیس والے پھر بھی ان سے بحث کر رہے ہیں۔۔۔ اسی اثنا میں ایک پولیس موبائل دور سے آتی دکھائی دی۔۔۔


"اب جیسے ہی یہ پولیس موبائل ان کے قریب پہنچے گی۔۔۔ یہ لوگ لڑکوں کو بھگا دیں گے اور خود سائیڈ پر کھڑے ہو جائیں گے"۔۔۔


پولیس موبائل کے قریب پہنچتے ہیں، لڑکے اپنی موٹر سائیکلوں پر بیٹھے اور ایسے روانہ ہوئے جیسے یہ ان کے لیے روز کی بات ہو۔۔۔  موبائل پولیس والوں کے قریب پہنچ کر کچھ دیر رکی اور  پھر آگے بڑھ گئی۔۔۔


میں نے کاشی کو کہا، کہ یار میں نے یہ سب کچھ پہلے سنا ضرور تھا لیکن کبھی دیکھنے کا تجربہ نہیں ہوا۔۔۔ اور آج جب مشاہدہ ہو گیا ہے تو اندازہ ہوا ہے کہ پاکستانیوں کی زندگی واقعی بہت مشکل اور ذلت آمیز ہے۔۔۔


خیر، کچھ دیر بیٹھ کر ہم  نے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔۔۔ پولیس والے اب تک وہیں کھڑے تھے۔۔۔   گاڑی ان کے قریب سے گزارتے ہوئے، کاشی نے اونچی آواز میں پولیس والوں کو کہا۔۔۔ "میں نے دیکھ لیا ہے سب کچھ۔۔۔" اور یہ کہہ کر گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔



5 Comments

  1. راستے میں “عبداللہ شاہ غازی کا مزار” تھا… وجہ عقیدت تھی، کاشف سے درخواست کی کہ بھائی چل اندر چل کر بابا جی کے لیے دعائےِ خیر کرتے چلیں۔زندہ باد بھائی عمران اقبال، کیا خوب اظہار کیا ہے آپ نے اپنے جذبے کا، دل خوش کر دیا۔
    ہم باہر رہنے والوں کو یہ سب کچھ جو آپ نے لکھا ہے بہت عجیب لگتا ہے مگر وہاں رہنے والوں کیلئے ایک عام سی روٹین ہے جیسا کی کاشی کی رننگ کمنٹری سے ظاہر ہے۔
    ایک بار چلتی ٹریفک کے بہاؤ میں سے مجھے ایک ٹریفک سارجنٹ نے دور سے علیحدہ ہوجانے اور سائڈ میں لگنے کو کہا تو میں سمجھا شاید میرا جاننے ولا دوست ہے جو ان سینکڑوں لوگوں میں سے مجھے ہی علیحدہ بلا رہا ہے۔ میں نے جاتے ہی اس سے پوچھا تھا بھائی میں نے آپ کو نہیں پہچانا، باقی کی باتیں بے عزتی کے زمرے میں آتی ہیں اس لئے نہیں بتاتا۔ تاہم ایک بات آپ کو بتا دوں، اس وقت چالان پر دفعات لگاتے تھے، چالان چھڑوانے کیلئے کاغذات ایک دوست کو دیئے جس نے دیکھتے ہی پوچھا تھا بھائی تم نے پولیس والے کو قتل تو نہیں کر دیا، اتنی دفعات تو میں نے آج تک اپنی زندگی میں کسی کے چالان پر لگی ہوئی نہیں دیکھیں۔ میں نے کہا بھائی مجھے تو کوئی پتہ نہیں ہے تم جانو اور تمہارا کام جانے۔

    ReplyDelete
  2. جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دفعہ نانی اماں کے گھر جا رہے تھے ، راستے میں ایک پولیس والے نے ایک دودھ والے کی موٹر سائیکل روک لی تھوڑی دیر بعد میرا چھوٹا بھائی آواز لگا را تھا ، امی دیکھیں دودھ والے نے اپنی مٹھی میں اسکو پیسے دے دئیے ۔ لو جی آج اسنے پہلی دفعہ رشوت لیا دینا جسکے بارے صرف سنا ہی تھا دیکھ لیا ۔

    ReplyDelete
  3. ہم کراچی میں رہنے والے تو یہ کام بلکہ اس سے بھی زیادہ روزانہ دیکھتے ہیں. اس لیئے ہمارے لیئے یہ پرانی باتیں ہیں :)

    ReplyDelete
  4. پاکستان میں تقریبا یہ مسئلہ ہر شہری کو درپیش ہے۔پولیس والے کہتے ہیں کہ ہماری ڈیوٹی لگانے والے شام کو پیسے مانگتے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. آپ پاکستان کی بات کررہے ہیں میں نے انڈیا میں بھی یہ سب ہوتے دیکھا اور سنا ہے ۔

    پولیس تو بد نام ہے ہی مگر عوام بھی اپنے کوتاہیوں سے باز نہیں آتی اورشیر کو آدم خور بنادیتے ہیں۔۔۔

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔