بڑھاپا یا مجبوری

اسلام آباد ائیرپورٹ پر بے ہنگم قطار میں کھڑے میری نظر ایک بزرگ خاتون پر پڑی۔۔۔ اور نگاہ ان پر ایسی رکی کہ بس ویٹنگ ہال پہنچنے تک انہی پر ٹکی رہی۔۔۔ خاتون کی عمر  کچھ ستر کی دہائی میں  ہوگی۔۔۔ سادہ سی شلوار قمیض ، جرابیں اور چپل پہنےہوئی، انتہاء کی معصومیت اور نور چہرے پر نمایاں تھا۔۔۔ میں نے غیرارادی طور پر ان کے اردگرد کا جائزہ لیا۔۔۔ ان کے ساتھ شاید ان کا بیٹا تھا۔۔۔ بہو اور دو پوتے  ۔۔۔ امیگریشن کی قطار میں وہ پورا خاندان میرے برابر کی قطار میں کھڑا تھا۔۔۔


یہ خاندان شاید بذریعہ دوحہ یورپ کے کسی ملک جا رہا تھا۔۔۔ بیٹے، بہو اور پوتوں کے ہاتھ میں میرون پاسپورٹ اور بزرگ خاتون کے ہاتھ میں سبز پاکستانی پاسپورٹ۔۔۔


معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے ان خاتون کی انتہائی پروقار شخصیت پر بہت پیار آ رہا تھا۔۔۔ میرا دل چاہا کہ میں ان کے ہاتھ تھاموں اور انہیں کہوں، چلو اماں میرے ساتھ چلو۔۔۔  اور میرے ساتھ رہو۔۔۔ میری نظر ان کےخوبصورت اور معصوم چہرے سے ہٹ ہی نہیں پا رہی تھی۔۔۔


تجسس کے ہاتھوں مجبور میں ان کے بچوں کی تاثرات بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔ بیٹا شاید مجبور تھا کہ ماں کی پرواہ کرنے والا اب پاکستان میں کوئی نہیں، اس لیے اسے ساتھ لے جانا ضروری تھا۔۔۔  بہو انتہاء کی بے زار لگ رہی تھی۔۔۔ اور چہرے پر فرعونیت  نمایاں تھی۔۔۔ ایسا محسوس ہوا کہ کہہ رہی ہو۔۔ میرے بندے کی کمائی اب اس بڈھی پر بھی لگے گی۔۔۔ اور الٹا اس کی خدمت بھی کرنی پڑے گی۔۔۔  دونوں پوتے جو شاید چودہ پندرہ سال کے ہوں گے۔۔۔ ماں سے بھی زیادہ بیزار۔۔۔   جیسے باپ کو کہہ رہے ہوں۔۔۔ "پاپا، یہ ہم کو کہاں پولیوشن میں لے آئے ہو۔۔۔ وی ڈونٹ وانٹ ٹو کم بیک ہیر"


باپ بے چارہ بنا، کبھی اپنی بیوی کے تیور دیکھتا۔۔۔ کبھی اپنے بچوں کے نخرے۔۔۔ اور کبھی اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیتا۔۔۔ جس پر ماں کی آنکھوں میں تھوڑی سی چمک آتی، ایک مسکراہٹ چکمکاتی اور پھر غائب ہو جاتی۔۔۔


اسلام آباد ائیرپورٹ کی بے ہنگم اور گھٹیا سروس۔۔۔ انتہائی زیادہ رش۔۔۔ اور افسران کی سستی۔۔۔ ہر کام آہستہ آہستہ ہو رہا تھا۔۔۔ رات گئے کی دو پروازیں تھیں۔۔۔ اس درمیان۔۔۔ بزرگ خاتون کے جسم اور چہرے  پر تھکاوٹ کےآثار واضح تھے۔۔۔ لیکن اپنی بیٹے اور بہو پوتوں کا ساتھ ، ان جیسی تیزی سے دینا بھی چاہتی تھی۔۔۔ امیگریشن قطار میں کھڑے۔۔۔ خاتون نے اپنے بڑے پوتے کے چہرے کے قریب ہو کرہلکی مسکراہٹ کےساتھ اس سے کچھ بات کی۔۔۔ پوتا، جو شاید کسی قسم کے زعم میں مبتلا تھا۔۔۔ اس نے اپنی دادی کی بات سن کر ایسا منہ بنایا ، جیسے بات سن کر بھی کوئی احسان کیا ہو۔۔۔


میری آخری نظر اس خاتون پر تب پڑی جب امیگریشن کاونٹر عبور کر کے اس کی بہو اس کا ہاتھ تھامے، گویا اسے کھینچتے ہوئے جا رہی تھی۔۔۔ بہو رانی  شاید وہ وقت بھول گئی تھی جب یہی خاتون کتنی چاہ اور ارمانون سے اسے بیاہ کر اپنے گھر لائی تھی۔۔۔ اس کے ناز نخرے اٹھائے تھے۔۔۔ اسے اپنے بیٹے کے ساتھ کے لیے باہر بھیج دیا تھا۔۔۔ اب وہ اپنی بہو کے ہاتھوں مجبور تھی۔۔۔ کہ اگلی زندگی اسی کے گھر گزارنی تھی۔۔۔


دو دن گزر گئے واپس دبئی آئے۔۔۔ لیکن نا جانے کیوں میں اس خاتون کا چہرہ نہیں بھلا پا رہا۔۔۔ اس کے چہرے کی معصومیت میرےذہن پر کچھ انمٹ نقوش چھوڑ چکی ہے۔۔۔  بار بار اس خاتون کی مسکین مسکراہٹ یاد آتی ہے۔۔۔


بار بار اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے کے بچوں کو اس کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔ مجبوری سے نہیں۔۔۔دل سے۔۔۔ پوری محبت اور پیار سے۔۔۔

9 Comments

  1. عمران بھائی!
    یہ آپ کے اندر کا احساس اور خُوبصورت انسان ہے جو دودن سے یوں سوچے جارہا ہے۔ ممکن ہے وہ خاتُون اپنی بہؤ کی بجائے اپنی بیٹی کے ساتھ سفر کر رہی ہوں یا ۔۔ یا مذکورہ خاتون یوروپ میں اپنے بچوں کے پاس جارہی ہو اور انکا بیٹا اور پوتے بہو نظر آنے والا خاندان انکا حقیقی خاندان نہ ہوـ؟۔ وہ لوگ محض سفر کی حد تک انکے ہمسفر ہوئے ہوں۔ کہ عام طور پہ بزرگ شہری اکیلے اتنا لمبا سفر نہیں کرسکتے۔ اسلئیے وہ خاتُون اپنے خاندان کے کسی جاننے والے کے ساتھ سفر کر رہی ہوں؟۔

    ReplyDelete
  2. جاوید بھائی۔۔۔ ساری بات قیاس کی ہے۔۔۔ آپ نے نہایت مثبت قیاس کیا کہ کوئی دوسرے تعلقات ہو سکتے ہیں۔۔۔ میں نے تو بس وہ لکھ دیا۔۔۔ جو مجھے محسوس ہوا۔۔۔ چہرے اور رویے دیکھ کرمیں نے کچھ دوسرے رشتے سمجھ لیے۔۔۔

    ReplyDelete
  3. اللہ کا شکرہے ابھی تک ہمارے ہاں بزرگوں کی کچھ نہ کچھ دیکھ بھال کی جاتی ہے، گو وہ اتنی نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہئے، مگر پھر بھی بہت سے ترقی یافتہ ممالک کو جب اپنا خاندانی سسٹم دکھاتے ہیں تو حضرت وہ پاگل ہو جاتے ہیں

    ReplyDelete
  4. یقیننا ہمارے ہاں بوڑھے افراد کا ابھی تک خیال کیا جاتا ہے ۔ کبھی کسی اولڈ ہوم کا دورہ کر کے دیکھیں تو ہمارے معاشرے کی اس روش کی قدر معلوم ہو جائے گی ۔ باقی اماں جی کا اپنے خاندان کے ساتھ کوئی گھریلو معاملہ ہو گا جو کہ چلتا رہتا ہے خاندانوں میں

    ReplyDelete
  5. انسان خوش ہو تو اسے ہر طرف بہار لگتی ہے ۔ غمگین ہو تو پتے اور پھول بھی اُداس لگتے ہیں ۔ کسی بھی واقعہ کے متعلق رائے قائم کرنا اس سوچ سے بے حد متاءثر ہوتا ہے جو اس لمحے اپنے ذہن میں موجود ہو ۔ کوئی عجب نہیں کہ حقیقت وہ ہو جو جاوید گوندل صاحب نے لکھی ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جوان خاتون بہو ہی ہو اور وہ کسی اور وجہ سے پریشان ہو
    آپ اسلام آباد ائے اور چلے گئے ۔ اگر مجھے معلوم ہو جتا کہ آپ کس پرواز سے آ رہے ہیں اور آپ کو وقت نہیں ملے گا تو مین آپ کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر ہی مل لیتا ۔

    ReplyDelete
  6. افتخار صاحب... وقت کی بہت کمی تھی... میں صرف ایک دن کے لیے پاکستان آیا تھا... صبح 9 بجے پہنچا اور رات 12 واپس ائیرپورٹ پر... آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے بارہا ملاقات کی خواہش کی... انشاءاللہ اگلی مرتبہ جب بھی چکر لگا، میں آپ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوںگا...

    ReplyDelete
  7. ہارٹ ٹچنگ تحریر کہیں یا ہارٹ اٹیکنگ۔۔ بات ایک ہی ہے۔۔۔۔ لیکن جو کتابیں ادب سکھاتیں تھیں پتا نہیں کیا ہوئیں۔۔۔ زبردست جناب

    ReplyDelete
  8. عمران بھا ئی۔
    کاش میں بھی ایسا لکھ سکوں۔ کاش!!! کاش!!! کاش...

    ReplyDelete
  9. جناب منگو صاحب، آپ بے شک اس تحریر سے بہت بہتر لکھ رہے ہیں....
    بہرحال تحریر سے زیادہ جذبات کو سمجھنے کا بہت شکریہـــ

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔