ایک پنجابی اور کراچی والے


پنجابی اور وہ ایم بی اے کی کلاس میں پہلی دفعہ ملے تھے۔۔۔ اور دونوں شدید محبت کرنے لگے۔۔۔ وہ کراچی کی تھی۔۔۔ اور بہت اچھی تھی۔۔۔ اتنی اچھی کہ پنجابی اس کے عشق میں گرفتار ہوتا ہوتا اس حد تک پہنچ گیا کہ پنجابی کے دل بھی بس اسی کے نام سے دھڑکتا تھا۔۔۔ دونوں نے بہت خواب دیکھے۔۔۔ بہت خوبصورت خواب۔۔۔ ایک دوجے کے ساتھ زندگی گزارنے کے خوبصورت خواب۔۔۔ ایک دوجے کا ہاتھ تھامے زندگی کے ہر لمحے کومزید خوبصورت بنانے کے خواب۔۔۔
پنجابی نے کبھی نا سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کراچی کی ہے۔۔۔ اور اس کے دل و دماغ میں پنجابی کے "پنجابی " ہونے کا کوئی تصور نہیں تھا۔۔۔ بس دونوں ایک دوجے کی محبت اور ساتھ میں ڈوبتے ہی چلے گئے ۔۔۔
پنجابی کا آفس اس کے آفس سےصرف ایک کلومیٹر دور تھا۔۔۔ ہر شام دونوں کام ختم کرنے بعد ، رستے میں موجود ایک کفتیریا کے باہر اپنی اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے اور چائے پیتے۔۔۔ چائے کی چسکیاں بھرتے، دونوں کی نظریں ٹکراتی رہتی لیکن لب کم ہی ہلتے تھے۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ دونوں کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ بس نظروں کا اٹھنا، جھکنا اور ایک دوسرے سے ٹکرانا ہی ساری گفتگو تھی۔۔۔
چائے ختم ہوتے ہی، دونوں اللہ حافظ کہہ کر اپنے اپنے گھر کی جانب روانہ ہو جاتے۔۔۔ لیکن گھر پہنچتے پہنچتے موبائل پر پھر سے رابطہ ہوتا اور وہ ساری باتیں کی جاتی جو آمنے سامنے کہہ نا پاتے۔۔۔
ساری ساری رات فون پر دل کے احوال کہے اور سنے جاتے۔۔۔ کئی بار لنچ یا ڈنر کے لیے بھی باہر جاتے۔۔۔ اتنے قریب اور تنہا ہونے کے باوجود ، پنجابی نے کبھی اسے ہاتھ تک نا لگایا، کہ پنجابی کو اس کی عزت اور عصمت کی بہت فکرتھی۔۔۔
پھر اچانک، اس کے گھر والوں کی ضد نے اس کی اور پنجابی کی زندگی اجاڑ دی۔۔۔ اور دونوں اپنے خواب کھو بیٹھے۔۔۔ اس کی منگنی طے کر دی گئی۔۔۔ پنجابی پر یہ خبر قہر بن کر گری۔۔۔ اور قریب تھا کہ پنجابی اپنے حواس کھو بیٹھتا۔۔۔ پنجابی نے بہت سوچ کر اسے، ہر قسم کے وعدوں اور قسموں سے آزاد کیا اور اسے تلقین کی کہ وہ اپنے والدین کے فیصلوں کو خوشی سے قبول کرے اور اپنے نئے ہمسفر کے ساتھ بھی وفا کرے۔۔۔
کچھ ہی عرصے میں اس کا رویہ پنجابی سے بلکل بدل گیا ۔۔۔ اور اب وہ پنجابی کو حد درجہ نظر انداز کرنے لگی۔۔۔ پنجابی جو دل کو اب تک سمجھا رہا تھا، اس نظر اندازی کو برداشت نا کر پایا۔۔۔ وہ اس کے سامنے رویہ گڑگڑایا کہ کم از کم دن میں ایک بار چند لمحوں کے لیے ہی سہی ، لیکن اپنی آواز تو سنا دے۔۔۔ کہ شاید اس کی آواز ہی پنجابی کا آخری سہارا تھی۔۔۔ لیکن وہ اپنے منگیتر کے ساتھ مصروف ہوتی گئی۔۔۔۔ اور پنجابی کو ایک ہمیشہ کے لیے محبت کے جہنم میں ڈھکیل گئی۔۔۔ اب پنجابی ہمیشہ جلتا اور کڑھتا رہتا ہے۔۔۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کس نے چھوڑا، "اس" نے یا "محبت" نے۔۔۔ پنجابی اب بھی اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔۔۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اب اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہے ۔۔۔ اور پنجابی کی دسترس میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی، وہ اب تک "اس" کی عزت کی حفاظت کر رہا ہے۔۔۔

_____________________________________

وہ پنجابی کے سامنے بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔۔۔ اس کے ویزٹ ویزے کے خاتمہ میں بس دس دن رہ گئے تھے اور اسے نوکری کی اشد ضرورت تھی۔۔ اور وہ کراچی واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔۔۔ پنجابی اس کی ریزومے کو بغور پڑھ رہا تھا۔۔۔
چند دن پہلے ہی پنجابی نے اپنے "پرچیزر" کو نکالا تھا۔۔۔ اور کام کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا تھا۔۔۔ پنجابی نے اس کمپنی کے لیے خون پسینہ بہایا تھا ۔۔۔ کینیڈا کے مالک پنجابی پر بہت اعتماد کرتا تھا۔۔۔ پنجابی نے دن رات کی محنت سے اس کمپنی کو صحرا سے اٹھا کر 15 ملین ڈالر کی کمپنی بنا دیا تھا۔۔۔ پنجابی پاکستان سے بہت محبت کرتا تھا۔۔۔ سٹیل فیبریکیشن کی کمپنی میں پاکستان سے 150 ویلڈر اور فیبریکیٹر منگوائے ، انہیں اچھی تنخواہیں دیں، ہر طرح کی سہولت دی۔۔۔ پاکستان سے آنے والے محنت کشوں میں 70 صرف کراچی سے تھے۔۔۔ سارے ملازم پنجابی سے شدید محبت کرتے تھے اور اسے اپنا مائی باپ سمجھتے تھے۔۔۔ پنجابی کی عادت ہی محبت کرنا اور دوسروں کے کام آنا تھا۔۔۔
پنابی کو دو ہفتے بعد چھٹی پر پاکستان جانا تھا۔۔۔ ریزومے پڑھتے ہی پنجابی نے "اس" کی جانب دیکھا اور کہا، "یو آر ہائرڈ۔۔۔ کل سے آفس آ جاو۔۔۔ اپاونٹمنٹ لیٹر ہیومن ریسورس آفس سے لے لو۔۔۔ میں ابھی وہاں فون کر دیتا ہوں۔۔۔ " اس نے پنجابی کا شکریہ ادا کیا اور جنرل مینیجر کے آفس سے نکل گیا۔۔۔
دو ہفتے میں اس نے اپنی محنت سے ثابت کر دیا کہ پنجابی نے اسے پرچیزر رکھ کر کوئی غلطی نہیں کی۔۔۔ اور وہ سیکھنے کی بہت لگن رکھتا ہے۔۔۔ پنجابی اپنا کام مختلف ڈیپارٹمنس کو سونپ کر چھٹی پر چلا گیا۔۔۔ یہ چار سال میں اس کی پہلی چھٹی تھی۔۔۔ اور وہ بھی صرف ایک ماہ کے لیے۔۔۔
ایک ماہ کے آرام کے بعد پنجابی واپس آیا۔۔۔ تو اس نے آفس کا ماحول میں واضح تبدیلی محسوس کی۔۔۔ کمپنی کا مالک بھی پنجابی سے اس گرم جوشی سے نا ملا ، جیسے وہ پہلے ملتا تھا۔۔۔ کچھ وفادار ملازم ایک شام اس سے باہر ملے اور اس تبدیلی کی وجہ بیان کی۔۔۔ بقول ان کے، "اس" نے پنجابی کے پاکستان جاتے ہی مالک سے میل جول بڑھانا شروع کر دیا۔۔۔ اور زیادہ وقت اس کے زاتی کام کرنے میں گزارتا تھا۔۔۔ اور کئی بار لوگوں نے مالک سے اسے پنجابی کی برائیاں کرتے بھی سنا۔۔۔ مالک جو شاید کچے کان کا تھا، اسے پنجابی سے متنفر ہونے میں زیادہ وقت نا لگا۔۔۔ اس نے مالک کو یقین دلا دیا کہ وہ ملازمین کی تنخواہیں کاٹ کر یا کم کر کے منافع میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔۔۔ پنجابی اس پلان کے آڑے آ گیا۔۔۔ وہ محنتی ملازمین کو ان کی محنت کے مطابق تنخواہ دینے کا حامی تھا۔۔۔ کئی بار پنجابی نے اسے اپنے آفس بلا یا تاکہ وہ اسے ان حرکات سے باز رکھ سکے۔۔۔ لیکن وہی شخص ، جو نوکری حاصل کرنے کے لیے پنجابی کے سامنے آنسو بہا رہا تھا، اس نے پنجابی کی ہر بات سننے سے انکار کر دیا اور پیغام بھیج دیا کہ پنجابی اسے جو بھی کہنا چاہتا ہے، مالک کے توسط سے کہہ دے۔۔۔

یوں کام کرنا پنجابی کے لیے عذاب بن گیا، اور چھ ماہ بعد پنجابی نے اس کمپنی سے استعفیٰ دے دیا، جس کو اس نے اپنے خون پسینے سے سینچا تھا۔۔۔

_________________________________________

ایک شام پنجابی اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا، اپنی محبت کی بے وفائی اور نوکری چلی جانے کی روداد سنا رہا تھا۔۔۔ دوست نے سرد آہ بھری اور اسے کہا ۔۔۔ "یار کراچی کے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں، بے وفا اور خودغرض۔۔۔ اب ان سے بچ کر رہنا۔۔۔" اس نے چونک کر اپنے دوست کی جانب دیکھا۔۔۔ اور پھر حیرت میں ڈوب گیا۔۔۔ اس نے تو کبھی ان سطور پر سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔ شاید پہلے بھی کئی دوست اسے دغا دے گئے، ان میں سے بھی کئی دوست کراچی کے تھے۔۔۔ تو کیا سارے کراچی والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔؟
پنجابی کو تو نئی نوکری مل گئی، جو پہلی نوکری سے بھی اچھی اور پرسکون تھی۔۔۔ وہ اسی محنت اور محبت کے ساتھ پھر سے کام پر لگ گیا۔۔۔ لیکن جب کچھ لمحے سکون کے ملتے تو وہ خود سے سوال کرتا کہ آخر اس نے کیا گناہ کیا۔۔۔؟ کیا محبت، محنت، وفاداری، انسان پروری، اعتبار اور اعتماد گناہ ہیں۔۔۔؟ کیا اس نے یہ سب کر کے کچھ غلطی کی۔۔۔؟ کیا اب وہ ساری عمر ، ان خوبصورت لیکن تلخ یادوں سے پیچھا چھڑا سکے گا۔۔۔ ؟ کیا وہ پھر کسی پر اعتبار کر سکے گا۔۔۔؟ کیا جو کچھ اس کے ساتھ ہوا، ایسا کرنا "کراچی" والوں کی خصلت میں ہے۔۔۔؟
نہیں، سارے کراچی والے برے نہیں، اسے کاشی یاد آ جاتا۔۔۔ جو اس کا گہرا دوست ہے۔۔۔ اور ہر دوسرے ہفتے کراچی سے فون کر تا ہے۔۔۔ اور وہ اسے شدید محبت کرتا ہے۔۔۔ نہیں سارے کراچی والے برے نہیں ہوتے۔۔۔۔ یہ تو بس ایک تجربہ تھا، جو اسے ہونا ہی تھا۔۔۔

_________________________________________

کچھ دن پہلے ایک تحریر میں پنجاب اور پنجابیوں کی خصلتوں پر بہت کڑی تنقید کی گئی تھی۔۔۔ صاف ظاہر تھا کہ محترمہ میں کس حد تک تعصب ہے۔۔۔ میں پھر سوچنے پر مجبور ہو گیا۔۔۔ کہ میں تو ایک محدود دائرہ کا باسی ہوں۔۔۔۔ میرے دکھ اور میری ساری خوشیاں تو مجھ سے شروع ہو کر زیادہ سے زیادہ میرے والدین ، بیوی بچی اور بھائی بہنوں تک ہی محدود ہو جاتی ہیں۔۔۔ اور میرے جیسے سادہ انسان بھی چند واقعات اور تجربات کی بنیاد پر کسی ملک، مذہب اور ثقافت پر اپنی اچھی یا بری رائے قائم کر سکتا ہے۔۔۔ تو پھر میں پاکستان کے ہر شہر، ہر صوبے، ہر زبان سے یکساں محبت کیوں کرتا ہوں۔۔۔ جبکہ مجھے بھی اپنے پاکستانی بھائیوں سے ہی کوئی دھوکے ملے ہیں۔۔۔ جب میرے ساتھ کوئی برا کرتا ہے تو کیوں یہ نہیں سوچ پاتا کہ کسی کراچی یا سندھی نے میرے ساتھ برا کیا۔۔۔ یا پنجابی، بلوچی اور پٹھان نے مجھے دھوکہ دیا۔۔۔ کیوں۔۔۔؟ کیوں مجھ میں ایسا تعصب نہیں ہے۔۔۔ جیسا کہ محترمہ اپنی ہر دوسری تحریر میں زہر کی صورت نکالتی ہیں۔۔۔

بڑا شکر کرتا ہوں اللہ کا، کہ اللہ نے مجھے متعصب نہیں بنایا۔۔۔ سب سے محبت کرنے والا اور اپنے مذہب و ملک سے حد درجہ محبت کرنے والا بنایا۔۔۔

36 Comments

  1. محترمہ؟
    آر یو سیریس؟

    ReplyDelete
  2. کچھ گندی مچھلیاں پورا تالاب خراب کردیتی ہیں۔
    پاکستانی چاہے کراچی کے ہوں یا بلوچستان کے، ہمیں ان سے محبت ہے اور ہمیشہ رہے گی!

    ReplyDelete
  3. ضیاء الحسن خانOctober 15, 2011 at 4:24 AM

    میں ماڈریشن پر تبصرے صرف پڑھتا ہوں

    ReplyDelete
  4. واردات قلبی کا خوب بیان ہے. بیان کی سادگی دل موہ لینے والی ہے.
    مجھے تو صرف یہی کہنا ہے کہ اگر راستے میں کوئی کانٹے بکھیر رہا ہو تو اس پر پیررکھنا دانشمندی نہیں بلکہ چن کر ایک طرف رکھ دینا ہی اصل حکمت ہے.

    ReplyDelete
  5. اگست 1947ء میں ہم سب پاکستانی اپنی محدود ذاتی نسل و زبان پرست شناختوں کو ایک بڑی شناخت میں رضاکارانہ طور پر گم کر کے پاکستانی کہلائے تھے‘ ہمارا جھنڈا ایک‘ ہمارا قائد ایک‘ ہماری رابطے کی زبان ایک‘ ہمارا پاسپورٹ ایک لیکن آج کل محترمہ جیسے چھوٹے ذہن کے لوگ بڑی بڑی باتیں کر کے ہم کو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. او رانجھا جی۔۔۔۔بہت خوب لکھا۔
    ہمیں نسلی لسانی یا مسلکی بیوقوفانہ تعصب سے ہر حال میں نفرت کرنی ہے۔
    مجھے تو کراچی والے اچھے لگتے ہیں۔
    زیادہ تر ذہین ہوتے ہیں،اور بات کو بھی سمجھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  7. مجھ سے دکھی داستانیں زیادہ دیر پڑھی نہیں جاتیں. لیکن کراچی والوں سے آپ کے تجربات خاصے تلخ لگتے ہیں.

    ReplyDelete
  8. اتنی دکھ بھری داستان عمران بھائی؟ ویسے لکھا خوب ہے.
    باقی جن کا آپ ذکر کررہے ہیں ایسے لوگوں کی فطرت میں نفرت اور تعصب ہوتا ہے....

    ReplyDelete
  9. عمران بھائی، انگلش کا ایک محاورہ ہے جسکا مفہوم کچھہ اسطرح سے ہے۔ ہماری آج کی خواہشیں کل کا خوف ہوتی ہیں۔ مطلب پوری ہونے کی صورت میں۔ جون ایلیا نے کہا تھا کہ۔ ہم نے دیکھا تو یہ دیکھا۔ جو نہیں ہے وہ سب سے حسین ہے۔

    ReplyDelete
  10. بڑے بھائی،
    ہم سب اپنے اپنے سٹیریو ٹائپ کے غلام ہیں. اور سٹیریو ٹائپ سے نکل کو سوچ اس لئے نہیں پاتے کہ ایسا کرنے کی صورت میں ہم اپنی ہی کمیونٹی میں اچھوت قرار پائیں گے. اور اجنبیوں کا ڈر تو ہر قوم اور علاقے میں پایا جاتا ہے. زینو فوبیا کا نام تو سنا ہی ہوگا.

    اب بات معاشرتی رویوں کی طرف آ جاتی ہے. کس طرح اپنی مقصد برآری کے لئے کونسا ہتھکنڈا استعمال کرنا ہے، یہ سب منحصر ہے انسان کی ابتدائی تعلیم و تربیت پہ. اگر تو "مروجہ اصولوں " سے ہٹ کر ہوئی ہے تو آپ کی طرح رونا روتے نظر آئیں گے. اور اگر معاشرے کے رواج کے مطابق ہوئی ہے تو اپنی قوم کے علاوہ کسی بھی قوم میں کوئی اچھائی نظر نہیں آنے والی. بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہو جائے گی. لہذا کسی بھی فرد کی اچھائی یا برائی کی وجہ سے کسی بھی قوم کو اچھا یا برا کہنا بذات خود ایک انتہا پسندی ہے.

    مگر، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، اگر میری قوم والے کسی ایک قوم کو برا کہہ رہے ہیں اور میں اچھا کہہ رہا ہوں تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا. ضروری نہیں "وہ" بھی میری نیک نیتی سے متفق ہوں. نتیجہ یہ کہ ہر ایک اپنے اپنے شیشے کے گھر میں قلعہ بند ہو کر دوسری طرف سنگ زنی کرتا نظر آتا ہے.

    کبھی آپ نے سوچا کہ یہ بے اعتباری، یا ٹھکرا دئے جانے کا خدشہ کب اور کیوں انسانی معاملات میں در آیا؟ اور اس خدشے کو کم کرنے کے لئے، یا اس کی طاقت کو گھٹانے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟

    ReplyDelete
  11. لکھنے کا انداز اچھا لگا ۔۔۔۔

    ReplyDelete
  12. میں بھی کراچی سے ہوں یاد ہے نا؟

    ReplyDelete
  13. اچھی تحریر ہے اور پڑھ کر دل خوش ہوا کہ شکر ہے ابھی ایسے لوگ باقی ہیں جن میں اتنی عقل ہے کہ ایک بندے کی غلطی پوری قوم پر نہیں تھوپتے اور ابھی ہم میں انسانیت باقی ہے.

    ReplyDelete
  14. بہت اچھی لگی جناب کی یہ تحریر۔ اور آپ کی کہانی جان کر بھی اچھا لگا کہ آپ ایک پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی بھی کراچی والا یا پنجابی ضروری نہیں کہ سب ہی برے ہوں۔ یہ فقط سیاستدانوں کی بنائی ہوئی ایک بساط ہے جس پر چند دل جلے ان کے مہرے بن کر کھیل رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  15. مطلبی لوگ ہر شہر اور ہر مُلک ميں پائے جاتے ہيں ليکن کچھ علاقوں کی تخصيص ہو جاتی ہے ۔ ميرے کراچی ميں دوست بھی ہيں اور قريبی رشتہ دار بھی ۔ مگر جو لوگ ايک خاص گروہ سے تعلق رکھتے ہيں اُنہوں نہے مجھ سے بہت فايدے اُٹھائے اور جب مطلب پورا ہو گيا تو پيٹھ ميں چھُرا گھوپنے والی بات کی

    ReplyDelete
  16. بھائی بہت اچھے الفاظ میں آپ نے اپنی آپ بیتی بیان کی ہے اور مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہوئی ہے کہ آپ نے کسی ایک کے کئے دھرے کا الزام سب کے سر پہ نہیں تھوپ دیا .

    باقی اللہ پاک ان محترمہ کو بھی ہدایت دے اور تعصب کی بیماری سے ان کو شفا دے

    ReplyDelete
  17. @ ڈفر: یس آئی ایم ڈیم سیریس... :wink:
    @ سعد: بلکل درست کہا، کچھ آنٹیاں پورے بلاگستان کو گندہ کر دیتی ہیں... اوہ سوری... کچھ مچھلیاں سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہیں...
    @ ضیا بھائی: ماڈریشن کی وجہ پہلے بھی بتا چکا ہوں.
    @ ڈاکٹر جواد صاحب: اسی لیے تو اپنی راہ بدل لی... کہ بلاوجہ کانٹوں سے الجھنا مجھے بھی پسند نہیں...
    @ وسیم: یہی حقیقت ہے کہ ہم ایک ملک تو بن گئے لیکن ایک قوم آج تک نا بن سکے... اور یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے...
    @ یاسر خوامخواہ بھائی جان: کراچی والے بہت عمدہ لوگ ہیں، ویسے ہی جیسے پنجابی، پٹھان اور ہمارے بلوچی بھائی ہیں... مثال آپ کو بلاگستان میں ہی کئی بلاگرز کی مل جائے گی... بلاشبہ بہت اچھے انسان اور دوست ہیں کراچی سے... ماسوائے چند ایک کے...
    @ دوست: بلاگ پر تشریف آوری کا بہت شکریہ... جناب ابھی تو کہنا اور لکھنا شروع کیا ہے... اگر زندگی کی تلخیاں بیاں کرنا شروع کر دوں تو ڈر ہے کہ آپ جیسے قاری سے ہاتھ دھونا پڑے گا...

    ReplyDelete
  18. @ وقار بھائی... شکریہ حضور...
    @ فکر پاکستان بھائی... مجھے ان سے بھی محبت ہے جنہیں آج تک نہہیں دیکھا... اور ان سے بھی جن سے سو دکھ کھائے...
    @ حجاب... شکریہ
    @ ال م... جی جانتا ہوں کہ آپ بھی کراچی سے ہیں... اور کراچی اور کراچی والوں سے مجھے شدید محبت ہے...
    @ بلال صاحب... بلاگ پر ایک لمبے عرصے بعد تشریف آوری کا اور تحریر کے مغز کو عمدگی سے سمجھنے کا بہت بہت شکریہ...
    @ یاسر عمران صاحب... بلکل جناب، زندگی اللہ کے فضل و کرم سے بہت سکون سے گزر رہی ہے... تجربات اور حادثات تو زندگی کا حصہ ہیں... اور انہیں ہنسی خوشی گزارنا ہی بہتر ہے...
    @ افتخار اجمل صاحب... انکل امید ہے کہ روبصحت ہیں... اللہ آپ پر اپنا کرم و فضول بنائے رکھے اور اپنے حفظ و امان کی جھاوں میں رکھے... آمین... تبصرے کا بہت شکریہ... میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اچھے برے لوگ ہر قوم، مذہب، اور ملک میں ہوتے ہیں... لیکن ان لوگوں کو بنیاد بنا کر پوری قوم کو برا بھلا کہنا کسی صورت عقل مندی نہیں ہے...
    @ عدنان شاہد صاحب... بہت بہت شکریہ تبصرے اور تحریر کی پسندیدگی کے لیے...

    ReplyDelete
  19. منیر عباسی بھائی... مفصل تبصرے کا بہت بہت شکریہ... جناب آپ کی ہر بات سے اتفاق ہے... مزید یہ کہنا چاہتا ہوں... کہ ہم جب اپنی اپنی قوم کے مروجہ قوانین کے غلام ہو جائیں اور انہیں قوانین کو بنیاد بنا دوسری اقوام کو نیچھ اور گھٹیا ثابت کرنے کی کوشش کریں تو واقعی ہم میں اور حیوانات میں کوئی زیادہ فرق نہیں... اگر پنجاب غلطیاں کر رہاہے تو کیا کراچی والے دودھ کے دھلے ہیں... لیکن صرف تعصب کی بنیاد پر ہم پورے کے پورے کراچی اور کراچی والوں کو الزام نہیں دے سکتے... اور یہی اصول ہمیں ہمارا دینِ اسلام سکھاتا ہے... کہ ہر شخص کے اعمال کو صرف اسی شخص کی شخصیت سے مانپا جائے نا کہ غلطی ایک شخص کی اور قتلِ عام پورے قبیلے کا... ایسا تو نا کہیں سنا نا پڑھا...
    مزارِ جناح کے احاطے پر ملزمان پانچ دن تک ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بناتے رہے... تو کیا قصور پورے کراچی کا ہو گیا... کیا میں پورے کراچی اور سندھ کو الزام دینا شروع کر دوں...؟ ٹارگٹ کلنگ، زنا بالجبر، بچوں کے ساتھ زیادتی، چوری چکاری، خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور چھیڑ چھاڑ کیا صرف پنجاب میں ہوتے ہیں، کراچی میں نہیں ہوتے...؟ کیا کراچی والے ہر غلطی سے مبرا ہیں...
    یہی بات سمجھانے کے لیے یہ تحریر لکھی گئی... کہ میں چاہوں تو ذاتی حادثات کی بنیاد پر فتویٰ دے دوں کہ کراچی کا ہر شخص واجب القتل ہے چونکہ میرے ساتھ انہوں نے اچھا نہیں کیا... کیا یہ جائز ہوگا... ہر زی شعور انسان انہیں سطور پر سوچے گا کہ نہین غلطی صرف ایک زاتی فعل ہے... نا کہ کراچی والوں کا اجتماعی جرم...
    اوپر فیس بک کے تبصرےپر راجہ افتخار صاحب بھی بلکل درست ہیں، کہ ہر قوم اور ثقافت کی تربیت بھی ہر مختلف ہے... ان کے، جناب افتخار اجمل صاحب کے اور میرے ذاتی تجربے یہی کہتے ہیں کہ بری تربیت اب جڑوں میں بیٹھ رہی ہے... جو آگے چل کر مزید خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے...
    میں کئی وجوہات کی بنا پر ان محترمہ کا نام اپنے بلاگ پر استعمال نہیں کرنا چاہتا... لیکن مجھے یقین ہے کہ سب قارئین سمجھ چکے ہوں گے کہ میرا مخاطب کون خاتون ہیں... انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک دو پٹھو قسم کے قارئین کے بل بوتے پر وہ تعصب کو پھیلا نہیں سکتے... میرے بلاگ پر قارئین کے تبصرے اور رائے دیکھ کر انہیں یقین آ جانا چاہیے کہ ان کی سوچ نہایت غلط ہے اور انہیں اپنی تعصبانہ رائے بدلنے کی شدید ضرورت ہے... حالانکہ مجھے پہ بھی یقین ہے کہ وہ بدلنے والی نہیں.... جس گرو کو وہ فالو کرتی ہیں، وہ نہیں بدلا تو یہ کیسے بدلیں گی...

    ReplyDelete
  20. عمران بھائی دیر سے تبصرہ کرنے پر معذرت ، لیکن کچھ چیزیں پڑھ کر طبیعت ایسی مکدر ہوئی پڑی کہ کیا بتاوں۔

    عجیب جانگلوس لوگ ہیں کہ ایک ہی بات جسکا جواب بار بار دیا جا چکا ہے پھر مختلف الفاظ سے دہراتے چلے جاتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں روشن خیالی پھیلانے میں انہوں نے بڑا کردار ادا کر دیا ۔ میرے خیال سے چھوٹے کردار کے یہ بڑے لوگ فحاشی پھیلانے کے لیے ہی کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

    آپ کی تحریر کا انداز بہترین ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں ۔

    ReplyDelete
  21. جو گندی مچھلیاں تالاب کو گندا کر رہی ہیں انہیں تالاب سے باہر نکال کر کیوں نہیں پھینک دیا جاتا

    ویسے ان مچھلیوں کی گندگیوں اور غلاظتوں سے اٹھنے والے تعفن نے دیگر مخلوقات کو ان سے دور کر دیا ہے

    کبوتر با کبوتر
    باز با باز

    ReplyDelete
  22. ابو عبد اللہOctober 17, 2011 at 10:15 PM

    اچھی تحریر ہے-

    ReplyDelete
  23. اس تمام واہ واہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ اورجزاک اللہ،کے بیچ میں ،میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ وہ شخص جس میں صبر تحمل اور برداشت نام کی کوئی چیز نہ ہو ،جو اختلاف رائے کا جواب ذاتی انتقام کی طرح دینے پر یقین رکھتا ہو (ثبوت کے لیئے اسی بلاگ پر موجود ایک نہیں کئی گھٹیا پوسٹس اور دیگر بلاکس پر کیئے غلیظ تبصرے )
    اس سے اس عظمت کی امید جس کا اس نے اپنے بارے میں اپنے منہ میاں مٹھو بننتے ہوئے تذکرہ کیا ہے،
    کم سےکم کوئی عقل مند انسان تو ہر گز نہیں کرسکتا،
    ہاں چند تعصب کے مارے لوگ جو عنیقہ کے دکھائے سچ کے آئینے کا سامنا نہیں کرسکتے،اور جواب نہ ہونے کی وجہ سے بلبلا کر رہ جاتے ہیں ،وہ ضروراس لن ترانی پر خوش ہوئے ہیں ہمیشہ کی طرح!

    اگر اس میں اوپر سنائی گئی کہانی کے مطابق صبر برداشت اور تحمل ہے تو میرا یہ تبصرہ کبھی اپنی پوسٹ سے نہیں ہٹائے گا!

    ReplyDelete
  24. عبداللہ تو انسان کا پتر کب بنے گا ؟

    ReplyDelete
  25. ضیاء الحسن خانOctober 18, 2011 at 1:50 AM

    کاشف ۔۔۔ یار یہ ناممکن کام کیا کہہ دیا تم نے اسکو ۔۔۔۔۔۔ :ڈ

    ReplyDelete
  26. The comment has been removed by the blog administrator due to the vulgar and inappropriate content.

    ReplyDelete
  27. دوستوں بھلا باراسنگھا انسان بھی بن سکتا ہے کیا؟؟؟ :devil:

    ReplyDelete
  28. بارہ سنگھے
    در فٹے منہ
    بوتل کی دم ہی رہو گے۔

    ReplyDelete
  29. یرا یہ عورتوں کی طرح طعنے دینے والا عبد اوم ابھی تک یہاں پایا جاتا ہےِ؟ عنیقہ کا آئینہ. ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا . سب سے بڑا لطیفہ . ہا ہا ہا ہا ہا.


    اس کو آئینہ دکھاؤ تو بکواس کرنے لگتا ہے اور پھر دوسروں سے صبر برداشت اور تحمل کی توقع رکھتا ہے. واہ . کیا بات ہے اس بارہ سنگھے کی. واہ.

    ReplyDelete
  30. کب آخر کب ہم سندھی پنجابی کی جنگ سے باہر نکلیں گے ؟؟؟
    ہم سمجھتے کیوں نہیں کہ جس نےیہ آ گ لگائی ہے۔ ہم نے اس کو جلانا ہے نہ کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنی ہیں ۔
    جتنی نفرت پھیل چکی اس لحاظ سے تو منہ سے پنجابی ، مہاجر، سندھی کے الفاظ نکالنے والے کو بھی پھانسی دے دینی چاہیے.
    نہ مجھے عنیقہ سے ہمدردی ہے اور نہ عبداللہ سے .
    مگر افسوس کے ساتھ جن اچھے اور سمجھدار بلاگرزکی لسٹ میں ، میں نے عمران صاحب کو رکھا تھا. وہ یہ بلاگ اور کمنٹس پڑھ کر پھاڑ دی میں نے.

    اللہ حافظ پاکستانی بلاگ

    ReplyDelete
  31. زیرو جی۔۔۔ آپ کے تبصرے کا بہت شکریہ۔۔۔ آپ کی عزت افزائی کا بھی بہت شکریہ کہ آپ نے کبھی مجھے اچھا اور سمجھدار بلاگر سمجھا۔۔۔ کاش کہ آپ نے میری یہ تحریر آخر تک پڑھی ہوتی اور تبصروں میں میرے تبصرے کو بھی غور سے پڑھا ہوتا۔۔۔ امید ہے کہ آپ پھر سے وقت نکالیں گے اور ایک بار پھر تحریر کے پیغام کا جائزہ لیں گے۔۔۔

    ReplyDelete
  32. انکل ٹام۔۔۔ دیر لگی آنے میں تم کو۔۔۔ شکر ہے پھر بھی آئے تو۔۔۔
    کوئی نہیں یار دیر سویر ہوتی رہتی ہے۔۔۔ بھائی جان، آج کل کی کافی تحاریر پڑھ کر طبیعت میری بھی مکدر ہی رہتی ہے۔۔ کوئی نئی بات نہیں، چلتا ہے، دنیا ہے، دستور ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  33. waoo amazing..bohaat mazay ki kahani hai.

    ReplyDelete
  34. عورت مرد کی نسبت محبت کرنا نہیں جانتی اسلئے آپ اُن محترمہ کی زہرفشانی کو اُن کی نادانی سمجھیں

    ReplyDelete
  35. واہ مانے بھائ۔ بہت عمدہ۔ لیکن اس پر تو یہ کہ بہت سے چے جو شاید غلطی سے پنجابی پیدا ہو گئے تھے ، اجکل صرف پنجابیوں پر سے یہ داغ دھونے کے چکر میں پنجاب کو دھوتے پھر رہے ہیں ۔ یعنی مالکاں کولوں کھوتی تاولی۔

    ReplyDelete

اگر آپ کو تحریر پسند آئی تو اپنی رائے ضرور دیجیے۔